ہماری قربانیاں ضائع تو نہیں ہو رہیں؟
عبد المعید زبیر
عید قربان کا آج دوسرا دن ہے۔ یقیناً بہت سے لوگوں نے آج بھی قربانی کی ہو گی یا کر رے ہوں گے، کئی ایسے بھی ہوں گے جو کل بھی اللہ کے نام پر جانور ذبح کر کے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کریں گے۔
ہمارے ہاں جیسے جیسے عید الاضحیٰ کے دن قریب آنا شروع ہوتے ہیں، بڑوں اور چھوٹوں میں قربانی کے تذکرے شروع ہو جاتے ہیں۔ پلاننگ ہو رہی ہوتی ہے کہ کیا خریدنا ہے، کتنے کا خریدنا اور کب خریدنا ہے؟ ایک دوسرے سے مشورے ہو رہے ہوتے ہیں۔ بچے اپنی فرمائشیں کر رہے ہوتے ہیں اور بڑے اپنی استطاعت کے بقدر سوچ رہے ہوتے ہیں۔ منڈیوں میں چہل پہل عروج پر ہوتی ہے۔ کوئی اپنا جانور خرید رہا ہوتا ہے تو کوئی جانور میں حصہ ڈالنے کا سوچ رہا ہوتا ہے۔ گلی محلوں میں کہیں بچے بکروں کو چارہ کھلاتے نظر آتے ہیں تو کہیں اونٹ پر سواری کر کے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ گویا ہر طرف قربانی کی رونقیں ہوتی ہیں۔
ایسے حالات میں جب ہم اپنی دھن میں مگن ہوتے ہیں تو کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہماری قربانی ضائع کر رہی ہوتی ہیں مگر ہم ان سے بالکل غافل ہوتے ہیں۔ ہر کام سے پہلے اس کے متعلقات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس چیز کو اس کی دی گئی ہدایات کے مطابق استعمال کرنا ہی سودمند ہوتا ہے۔
جیسے کوئی بیمار ہو تو ہم ڈاکٹر کی مرضی کے بغیر دوائی استعمال نہیں کرتے، عدالت میں ہوں تو وکیل کی مرضی کے بغیر کوئی بیان نہیں دیتے۔ مشینری خراب ہو تو انجینئر کے بغیر ہاتھ نہیں لگاتے۔ صد افسوس دین کے معاملے میں ہم میں سے ہر کوئی خود کو مفتی سمجھ رہا ہوتا ہے۔
عید سے قبل ایک صاحب استطاعت شخص کے پاس بیٹھا تھا کہ باتوں ہی باتوں میں بتانے لگا کہ انہوں نے قربانی کے لیے جانور خریدے تھے۔ شومئی قسمت کہ رات کے وقت کوئی کھول کے لے گیا۔ پہلے تو مجھے بہت افسوس ہوا مگر ساتھ ہی شاک بھی لگا۔ افسوس تو جانوروں کی چوری پر اور شاک اس کے فتویٰ دینے پر لگا۔ میں نے پوچھا کہ چوری کی صورت میں اب آپ نے کیا ارادہ کیا؟ تو کہنے لگے کہ بس ہماری تو قربانی ہو گئی نا۔ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔
ایسے کئی معاملات ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں، مگر ہمارا حال یہ ہے کہ خود تو کسی عالم یا مفتی کو سنتے اور پڑھتے نہیں اور نہ ہی کسی عالم یا مفتی سے پوچھنا گوراہ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن فتوے جاری کرنے میں کسی لیت لعل سے بھی کام نہیں لیتے۔ حالانکہ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا، چاہے واجب ہو یا نہ ہو، یا پھر اضافی جانور ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اگر وہ جانور ہلاک ہو جائے، چوری ہو جائے یا اس میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو نیا جانور قربان کرنا واجب ہوتا ہے الا یہ کہ وہ شخص غریب ہو۔
اسی طرح ہم اور بھی بہت سے قربانی ضائع کرنے والے کام کر رہے ہوتے ہیں مثلاً جانور خرید لیا تو حیلے بہانوں سے دوستوں اور محلے داروں کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اتنے لاکھ کا جانور لیا۔ بلکہ آج کل تو ٹی وی والے بھی پہنچ جاتے ہیں اور انٹرویو کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں جو عمل ہم نے اللہ کی رضا کے لیے کرنا تھا، وہ لوگوں میں واہ واہ کروانے کے لیے ہونے لگ گیا۔ اگر انہیں اس سے روکا جائے تو وضاحت حاضر ہوتی ہے کہ نہیں جی ہم تو ویسے ہی بتا رہے تھے۔ ہم کوئی تکبر نہیں کر رہے۔ فلاں فلاں۔ حالانکہ بزنس لین دین کو کبھی آؤٹ نہیں کریں گے بلکہ وہاں تو کہیں گے کہ جی بس اللہ نے کچھ پیسے دیے تھے تو فلاں جگہ انویسٹ کر دیے۔ اکثر تو کوشش ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ مگر یہاں بڑھ چڑھ کر بتا رہے ہوتے ہیں۔ ریاکاری اور نمائش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔
جانور خریدتے وقت یا خرید لینے کے بعد حصوں کے تعین کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ بس پورے گھر کی طرف سے ایک بکرا کر دیا، یا ایک گائے قربان کر دی۔ کس کس کی قربانی ہوئی، کون سا حصہ کس کا تھا؟ کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ حالانکہ بغیر نیت کے قربانی ہی نہیں ہوتی۔
اسی طرح جب حصے ملا کر قربانی کر رہے ہوتے ہیں تو لوگوں کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔ کہ کون کیسا ہے؟ اس کی کمائی کیسی ہے؟ اس کے عقائد کیسے ہیں؟ مسلمان بھی ہے یا نہیں؟ اس کی نیت قربانی کی ہے یا صرف گوشت کھانے کی؟ تو مسئلہ یہ ہے کہ اگر سات حصوں میں سے کسی ایک کی کمائی حرام ہوئی یا وہ کوئی غیرمسلم ہوا، یا کوئی لبرل سوچ کا مالک ہوا یا کسی کی نیت خالص قربانی کی نہ ہو تو سب حصہ داروں کی قربانی ضائع ہو جائے گی۔ لہذا حصہ ڈالتے وقت اس چیز کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ قربانی ضائع ہونے سے بچ سکے۔
تقریباً اکثر عید الاضحیٰ پر میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہمارے ایک ریٹائرڈ ماسٹر صاحب جو خود سے بڑا کسی کو مولوی ہی نہیں سمجھتے، ان کے ہاں عید کی نماز پڑھنے سے قبل ہی قربانی ہو رہی ہوتی ہے۔ یعنی جب ہم عید کے لیے جا رہے ہوتے ہیں تو ان کے ہاں قربانی ہو رہی ہوتی ہے۔ دیکھا دیکھی کچھ لوگ بھی یہ کام شروع کر دیتے ہیں کہ بعد میں قصائی ملنا مشکل ہوتا ہے یا زیادہ پیسے مانگتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شاید قربانی کر نہیں رہے بلکہ قربانی کا بوجھ سر سے اتار رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر نماز عید سے قبل قربانی کر لی گئی تو قربانی ہی درست نہیں ہو گی۔
ہمارے پڑوس جو ہر سال کئی اونٹ، بیل اور بکرے ذبح کرتے ہیں، ان کی قصائیوں کی اپنی ٹیم مختص ہے جو مسلسل تین دن اسی میں مصروف رہتے ہیں۔ وہاں دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ قصائی قربانی کی کھالیں، قربانی کی اجرت میں وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ عموماً ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصائی اپنی اجرت میں کھال وصول کرتے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ یہ ہے کہ عامل کو اس کے عمل میں سے اجرت دینا جائز نہیں۔ اگر کھال کو بطور عوض قصائی کو دیا تو اتنی رقم صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ یہ عمل بالکل ناجائز ہو گا۔
اسی طرح قربانی کر لینے کے بعد پھر دو غلطیاں کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم اپنے لیے اچھا اور صاف صاف گوشت چن لیتے ہیں۔ باقی ہڈیاں یا چربی والا غریبوں کے لیے مختص کر دیتے ہیں۔ حالانکہ سنت طریقہ یہ ہے کہ تین حصوں میں برابر تقسیم کیا جائے۔ ایک حصہ غریبوں کے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں کے اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے۔
پھر تقسیم کرتے وقت یہ غلطی کرتے ہیں کہ غریب اور سفید پوش لوگوں کو دینے کی بجائے زیادہ امیروں میں یا جن کے پہلے سے قربانی ہوتی ہے، ان میں ہی بار بار تقسیم کر رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں بھیجا تو ہم ان کو بھیج دیتے ہیں، ہم انہیں بھیجیں گے تو وہ ہمیں بھیجیں گے ۔ بلکہ یاد رکھتے ہیں کہ فلاں نے بھیجا یا نہیں۔ تاکہ اگلی دفعہ بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے۔
دوسرا یہ کہ غربا سارا سارا دن گوشت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ اور امراء رنگ برنگے کھانے کھا رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے سال ہماری قربانی ہوتے ہوتے رات گیارہ بجے کا وقت ہو گیا۔ تو کئی احباب جن کو ہر دفعہ گوشت بھیجتے تھے، ان سے رابطہ کیا تو پتہ چلا ان کے ہاں کسی بھی طرف سے گوشت نہیں آیا۔ اور ایسے کئی سفیدپوش لوگ ملتے ہیں جنہیں عید کے دن بھی گوشت میسر نہیں ہوتا۔ یہ بات ہماری تہذیب پر سوالیہ نشان ہے کہ جہاں کبھی مرتے ہوئے بھی ہر کوئی دوسرے کے لیے پانی چھوڑ رہا تھا، آج انہیں اپنے محلے اور شہر کے غریبوں اور مسکینوں کا خیال تک نہیں۔
یاد رکھیے! جیسے کسی بھی ادارے میں کوئی کام اس کے سربراہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا، اسی طرح ہمارے اعمال کا بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء اور احکامات کو سمجھے بغیر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپنی مرضی کے مطابق کیے گئے تمام اعمال غارت ہوں گے اگرچہ ساری ساری رات کے نوافل ہوں یا سالوں کے روزے۔ صرف وہی عمل قابل قبول ہو گا جو اللہ کی رضا کے مطابق اور اس کے احکامات کے مطابق ہو گا۔ لہذا اتنے بڑے عمل کو کرنے سے پہلے اس کی اہمیت اور فضیلت کے ساتھ ساتھ احکامات کا سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی نفع حاصل ہو۔