لائف سٹائلکالم

ضم اضلاع کے بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں!

محمد سہیل مونس

اگرچہ ملکی حالات نہایت ہی خراب ہیں اور خطے کے دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی زندگی مسلسل مشکل ہوتی جا رہی ہے بلکہ کچھ لوگ تو سری لنکا کی مثال دے رہے ہیں کہ ہم بھی بے حد جلد دیوالیہ ہو جائیں گے۔ ان بے خبروں کو شائد معلوم نہیں کہ ہم ایک زمانے سے سے دیوالیہ اسٹیٹ کو لے کر چل رہے ہیں جہاں عوامی فلاح و بہبود کا نہ کوئی انتظام ہے اور نہ اس بارے کوئی سنجیدہ نظر آتا ہے۔

ہم عمران خان کے دور حکومت سے مسلسل رو بہ زوال ہیں لیکن انھوں نے ریکارڈ قرضے لے کر کچھ نہ کچھ ملک کو مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا ہوا تھا، اب جب سے یہ نئے آئے ہیں تو انھوں نے تو عوام کی مت ہی مار دی ہے۔

ملکی معیشت کئی طرح کے چیلنجز کا شکار ہے۔ ایک جانب اگر بے روزگاری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو دوسری جانب جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ عوام دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پا رہے العرض ایک ساتھ کئی مسائل نے پاکستان کو آن گھیرا ہے اور نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔

ہم پاکستان کے پرانے سیٹل علاقوں کی کیا بات کریں۔ ابھی ابھی ضم شدہ اضلاع کے مسائل ماضی کے مقابلے میں مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان مسائل میں ایک مسئلہ ان چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کا بھی ہے جو صبح سویرے شاہ کس اور مضافات سے نکل کر حیات آباد اور دوسرے شہری علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ نہایت ہی کم عمر میں سڑکوں، چوراہوں اور گلی محلوں میں پانی کی بوتل اور وائپر لے کر ایک ایک گاڑی کا پیچھا کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے شیشے صاف کرنے کے عوض وہ پیسے کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی طرح کئی بچے حیات آباد جیسے پوش ایریاء میں کباڑ کی چیزیں اٹھانے اور بیچنے کے علاوہ شہر کے گند سے پلاسٹک اور کام کی چیزیں اٹھا کر بیچنے کا کام کرتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر بچے جو بہت ہی کم عمر کے ہوتے ہیں وہ بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بچے چوراہوں پہ کھڑی گاڑیوں سے قیمتی اشیاء، پرس، سیل فون وغیرہ تک اٹھانے سے گریز نہیں کرتے لیکن سب سے ناشائستہ بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف لڑکے نہیں ہوتے اکثر 8 سے دس بارہ اور تیرہ چودہ سال سے بھی بڑی عمر کی لڑکیاں ہوتی ہیں جو کبھی ماسک بیچتی نظر آتی ہیں اور کبھی ہاتھ میں وائپر پکڑے، جن کو اگر دیکھنے والوں کی نظریں غور سے دیکھی جائیں تو سخت افسوس ہوتا ہے۔

آج کا دور ہر لحاظ سے بڑا ہی نازک دور ہے، یہ بات اپنی جگہ کہ غریب گھروں کے یہ بچے غریبی ہی کی وجہ سے یہ سارا کام دھندہ کرتے ہیں لیکن یہ کوئی موزوں دلیل نہیں کہ آپ صرف درجن بھر بچے پیدا کر کے ان کو لڑکپن سے بھی پہلے مارکیٹ میں کمانے اتار دیں۔ کچھ تو خوف خدا اور حالات و واقعات کی نزاکت کو دیکھا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں کئی دفعہ پولیس اور دیگر محکموں سے بات بھی کی کیونکہ کل کو یہی بچے جن کا مستقبل آج سے تاریک نظر آ رہا ہے معاشرے کے لئے ناسور بن کر ابھریں گے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔

یہ بات اپنی جگہ کہ ملک نہ فلاحی ہے اور نہ رفاعی سارا بوجھ یا تو باپ کے کندھوں پر ہوتا ہے یا پھر بچاری ماں کے نازک شانوں پہ، اللہ تو جب پاکستانی حکمرانوں سے پوچھے گا تب پوچھے گا لیکن ان معصوم بچوں کی یہ آوارہ گردی، ان کا چوکوں اور سڑکوں پہ بے ہنگم دوڑنا، ایک دوسرے کو گندی گندی گالیاں دینا اور پھر ان میں سے معصوم بچیوں پر باپ کی عمر کے بڑوں کی گندی نظریں پڑنا یہ سب کچھ بہت معنی رکھتا ہے۔

ہمارے ہاں انتظامی امور چلانے واسطے کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی ایک بہت بڑی فوج موجود ہے جو گرمیاں تو کیا سردیوں میں بھی اپنے دفاتر سے باہر نہیں نکلتے تو ان مسائل کا کیا خاک نوٹس لیں گے۔

اگر حالات اسی طرح رہے تو کل کلاں کو یہی بچے کل معاشرے سے انتقام لینے کے لئے پر تولتے دکھائی دیں گے کیونکہ اگر ایک جانب ان کو معصوم سمجھ کر لوگ خلوص دل سے کچھ پیسے دے دلا دیتے ہیں تو اکثر بڑی گاڑیوں والے ان کو برا بھلا کہہ کر دوڑا دیتے ہیں۔ ان کے سینوں میں بھی دل ہیں آخر ایک نہ ایک دن انھوں نے بھی بڑا ہونا ہے اور ان ساری باتوں کا بدلہ معاشرے سے لینا ہے جو عمر بھر ان کے ساتھ کرتا رہا۔

یہ بچے ذرا سے بڑے ہو کر اکثر پیسے جوڑ کر صمد بانڈ اور طرح طرح کی دوسری اشیاء خرید اور سونگھ کر اپنے آپ کو مدہوش رکھنے کی مشق بھی کرتے ہیں۔ یہ عمل ان کو آئس، ہیروئن اور دیگر مہلک قسم کی نشہ آور ادویات کے استعمال تک لے کر جاتا ہے اور پھر پشاور کے کارخانوں مارکیٹ کی پٹڑی پر بیٹھے ہمنواؤں سے جا ملتے ہیں۔

اب بھی وقت ہے چاہے وہ ضم اضلاع کے والدین، بڑے بزرگ ہوں یا پھر شہری علاقوں کے نادار بچوں کے ماں باپ سب کو چاہیے کہ اپنی اولادوں کا دھیان بہرصورت رکھیں اور ان کو کم از کم دسویں جماعت تک تو تعلیم دلانے کی کوشش کریں۔ جب وہ اپنے برے بھلے میں تمیز کے قابل ہو جائیں تو ان کو کسی ہنر کے سیکھنے پر لگا کر حق حلال کی روزی کمانے کے قابل بنائیں۔

ہم پاکستانیوں اور خصوصاً پشتونوں کے پاس کھونے کے لئے ہمارے جگر گوشوں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، ہم دہشتگردی میں بھی مارے جاتے ہیں، ہمارے بچے سکول جا کر واپس نہیں آتے، ہمارے جنگل تک جلا دیئے جاتے ہیں، ہماری گلیاں بم دھماکوں سے لرز اٹھتی ہیں، ہم جنازے تو اٹھا اٹھا کر تھک گئے لیکن اپنی اولادوں کو مزید اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے۔

ہمارے والدین نے جاگنا ہو گا اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے، خود ایک نہیں تو دو دو کام کر کے گھر چلانا ہو گا لیکن اپنی جواں سال بیٹیوں اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو معاشرے کا ایک بہتر فرد بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button