محمد سہیل مونس
ہم اگر دیکھیں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قبائلی اضلاع کے ضم ہونے سے پہلے تک یہاں ک ملک حضرات کو یہاں کے سیاہ و سفید کا مالک مانا جاتا تھا جو صحیح بھی تھا لیکن ان علاقوں کا اصل مالک حکومت کا بٹھایا ہوا پولیٹیکل ایجنٹ ہوا کرتا تھا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی مخصوص نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک ملک کا ووٹ ساری برادری کا ووٹ تسلیم ہوتا تھا اور واقعی میں ملک صاحب جو چاہتے کر سکتے تھے۔ ان ملکوں کو چن چن کر قتل کیا گیا اور خصوصاً سیاسی شعور رکھنے والوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
کئی برس گزرنے کے بعد تعلیم کے عام ہونے اور جدید دنیا تک رسائی پانے کے بعد قبائلی عوام نے اپنے تھوڑے بہت شعور کے بل پر سیاسی میدان میں قدم رکھنا شروع کر دیا اور کئی ایک نے قومی سیاسی جماعتوں کو جائن کر کے اپنے علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کی آزادی کے وقت بھی ان علاقوں کا دورہ دیگر جماعتوں کے علاوہ باچا خان اور نہرو نے کیا تھا اور اپنی سیاسی کمپین بھی چلائی تھی لیکن اس وقت قبائلی عوام اس قدر سیاسی شعور نہیں رکھتے تھے کہ ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے۔
خیر دور بدلہ اور ایک زمانہ گزر گیا جس کے بعد سے قبائل میں سیاسی شعور اجاگر ہوا اور ساتھ میں سیاسی طور پر کچھ اصلاحات بھی عمل میں آئیں جس کے بعد سے وہاں کا سیاسی ماحول ملک کے دیگر جگہوں سے کافی گرم دکھائی دینے لگا۔ وہاں کے لوگوں نے حالیہ انتخابات ہوں یا دیگر ریلیاں قبائلی علاقوں سے کافی تعداد میں شرکت کی اور کئی جماعتوں کے جلسوں اور ریلیوں کو خوب گرمایا۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ضم اضلاع کے لوگوں میں جو سیاسی شعور پایا جاتا ہے اگر اس کو اسی طرح برقرار رکھا جائے اور انہیں ملکی سیاست میں جگہ دی جائے تو یہ لوگ مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہی لوگ آنے والے دور میں اس خطے کے لئے سیاسی طور پر ایک سرمایہ کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں، اپنے علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسی راہ ہموار کر سکتے ہیں جس پر چل کر وہ دوسری قوموں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر انسانیت کی بھلائی اور خوشحالی کے لئے مثال قائم کر سکتے ہیں۔
ہم آج پی ٹی آئی کے قادری صاحب کو دیکھ سکتے ہیں جو اپنے علاقے کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں اور وزارت مذہبی امور کا قلمدان رکھے ہوئے تھے۔ ہم چٹان صاحب جیسے گفتار والے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح داوڑ صاحب کی دلیل و منطق سے بھرپور خطابات سن چکے ہیں جس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں کافی پوٹینشل ہے اگر ان لوگوں کو مواقع میسر آ جائیں۔
ان تمام اچھی باتوں کے علاوہ ایک بات جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ علی وزیر جیسے شخص کو مسلسل پابند سلاسل رکھنا ان کے حلقہ کے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور بذات خود ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس پارلیمنٹیرین کا گناہ اب اتنا بھی بڑا نہیں کہ کئی ماہ سے ان کو جیل میں رکھا گیا ہے اور کئی دوسرے لوگوں کی حکومت، پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے فوراً بعد انھیں چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔ اس امتیازی سلوک کے بعد ضم اضلاع لے نوجوانوں میں غم و غصہ پنپے گا نہیں تو کیا اداروں پہ پیار آئے گا۔ حکومت وقت تو کم از کم اپنے اس پارلیمنٹیرئن کو جیل سے چھڑوا کر لائے جو ان کو پروڈکشن آرڈر پر رہا کر کے ان کے حق میں ووٹ ڈالنے آیا تھا۔ اگر صورت حال اسی طرح گو مگو کی رہتی ہے تو یہاں کے حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
پچھلے دنوں وزیرستان کے نوجوانوں کو بلا کسی قصور کے مارنا بھی ایک جواب طلب امر ہے۔ اگر ملکی دفاع پر اتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے تو شہریوں کے مال و جان کی حفاظت کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر امتیازی سلوک اور اس پر بدامنی کے بادل یونہی گھومتے رہیں گے تو ملکی حالات کبھی بھی درست سمت میں چلنے کے قابل نہیں رہ سکتے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے شہریوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش جاری رکھتے ہوئے ان کے دماغ سے منفی خدشات ہٹاتے چلے جائیں کہ یہ ملک جتنا کسی دوسری قومیت سے تعلق رکھنے والے کا ہے اتنا ہی سب کا ہے۔ اب اگر اس سعی سے خوف، ڈر اور کدورتوں کے سیاہ بادل چھٹ سکتے ہیں تو یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ آنے والے دور میں یہی لوگ آپ کا بازو بن کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ بھرپور طریقے سے ڈال سکتے ہیں۔ ہم نے بے جا کے خدشات پال کر اپنے ہی جگر گوشوں کو کھویا، اپنے ہی لوگوں کو اپنے سامنے ہتھیار اٹھا کر کھڑا کرنے پہ مجبور کیا، ہم ان لوگوں کی خوبیوں اور خاصیتوں کو پرکھ کر اور انہیں اپنا بھائی اور بازو سمجھ کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے وہ کچھ کر سکتے ہیں جو کبھی خواب ہوا کرتا تھا۔
ہم ان علاقوں سے اچھے کھلاڑی، باہمت اور جفاکش مزدور، ماہر ہنرمند اور آنے والے وقت میں بڑے بڑے سیاسی فگرز دریافت کر سکتے ہیں بس ذرا سے تعلیمی مواقع اور روزگار کے ساتھ ساتھ ہنر کے مراکز بھی دستیاب ہونے چاہئیں۔ اس کے بعد نتائج دیکھنے کی باری ہو گی اور انشاء اللہ اس کے نتائج کافی شاندار آئیں گے کیونکہ دنیا امید پہ قائم ہے اور ضم اضلاع کے باسی اب مزید تاریک دور میں رہنا نہیں چاہیں گے۔