ڈاکٹر سردار جمال
کائنات میں ہر چیز اپنے آپ میں اپنی خصلت کی مالک ہے۔ تمام نباتات، جمادات اور حیوانات کے ان خد و خال کو ہم زندگی بول سکتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ ہماری اپروچ صرف زندہ اجسام تک محدود ہے اور پھر حیوانات میں سے ہم انسانوں نے زندگی کا اپنی حد تک اپنا مطلب لے لیا ہے، جہاں تک انسان کی بات ہے تو اس کی زندگی بہت پیچیدہ ہے، جس کی وجہ اس کی مکاری اور دوغلاپن ہے، انسان کی اس خامی کو خوبی سمجھا جاتا ہے، اس خوبی کو پروان چڑھانے کے لئے نت نئے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں، جس کا مقصد کسی نہ کسی طریقے سے کمزور انسان کو پھنسانا ہوتا ہے۔
تاریخی پس منظر میں انسان قدرے شریف تھا کیونکہ اس وقت خوراک کی فراوانی تھی، ہر خاندان کھانے پینے کی اشیاء میں خودکفیل تھا مگر جب درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے خاندان قبیلہ اور اس کے بعد قبیلہ قبیلوں میں بٹ گیا تو اس دن سے جاگیرداری کا نظام درمیان میں لایا گیا۔ جاگیردارانہ نظام سے کمزور انسان کا استحصال شروع ہوا، ایسا کرنے کے لئے ایک مکار خاندان نے عوام کی توہمات سے فائدہ اٹھا کر ایک اعلی ذات یعنی خدا کے خاص بندے برہمن پیدا ہوئے اور ساتھ ہی خدا سے بعض تھوڑے دور اور بعض بہت دور یعنی اچھوت اور شودر وغیرہ پیدا کئے گئے۔
برہمن لوگوں کی کارساز گائے تھی جو تمام دنیا کا نظام چلاتی تھی۔ چونکہ برہمن کارساز کے خاص بندے تھے اس لئے خدا ان سے راضی تھا جبکہ نچلی اقوام کے لئے ضروری یہ تھا بلکہ ان پر فرض تھا کہ خدا کو راضی کرنے کے لئے برہمن کو خوش و خرم رکھا جائے اور ہر وہ کام کریں جو برہمن کے لئے باعث عیش و عشرت اور ان کیمنشاء کے مطابق ہو اور ہر وہ کام نہ کریں جس سے خدا کے بندوں کو تکلیف پہنچے، اپنی رعایا کو مغلوب رکھنے کی خاطر خدا کی طرف سے کئی بلکہ سینکڑوں کے حساب سے کتب نازل کی گئیں جن میں برہمن کی خاطر جانیں دینا اور خود بھوک و افلاس سے مر جانا مردے کی اعلی درجات کا باعث تصور کیا جاتا تھا۔
اس وقت سے لے کر اب تک دنیا کے تمام انسان دو گروہوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ عوام اور دوسرا گروپ برہمن یعنی اشرافیہ پر مشتمل ہے۔ عوام تعداد میں پچاسی فیصد ہیں جبکہ اشرافیہ تعداد میں صرف پندرہ فی صد لیکن عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ کمانے والے پچاسی فی صد لوگ ہیں جبکہ کھانے والے اشرافیہ پندرہ فی صد، عوام کماتے ہیں اور اشرافیہ مفت میں کھاتی ہے، جو کماتے ہیں وہ خود بھوکے ہیں، جو اشرافیہ کے لئے بنگلے بناتے ہیں وہ خود جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، جہاں ہل چلاتے ہیں وہ زمینیں اشرافیہ کی ہیں، جو برق بناتے ہیں وہ خود اندھیروں میں شب و روز بسر کرتے ہیں۔
جب سے صنعتی دور شروع ہوا ہے اس وقت سے رگ، وید اور گیتا کے ارشادات جمہوریت جیسے پراجیکٹس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ پہلے جن کتابوں سے احکامات نکالے جاتے تھے اب وہ احکامات اسمبلیوں میں بنا کر قانون کی کتاب میں درج کر دیئے جاتے ہیں جو عوام خوش اسلوبی سے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ کی بھلائی کے لئے کیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام دوست نہیں ہے، اب آپ کو زندہ باد کی جگہ مردہ باد بولنا ہو گا جو عوام من و عن قبول کر لیتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ عوام سے سوچ و فکر کی صلاحیت نکال دی گئی ہے، وہ اپنی بربادی کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ آقا کی بھلائی کے بارے میں فکرمند ہیں۔
اپنے تسلط کو قائم و دائم رکھنے کے لئے اشرافیہ عوام کی جدید انداز میں پیوندکاری کرتی چلی آ رہی ہے، عوام کو بتایا گیا ہے کہ اگر وزراء، صدر، سیکرٹریز، ججز، افسران بالا اور قوم کے محافظ نہ ہوتے تو آپ کا برا حال ہوتا مگر بے شعور عوام نے کبھی اتنا بھی نہیں سوچا کہ اگر ہم رزق کمانے والے نہ ہوتے تو آپ کے پیٹ میں روٹی نہ ہوتی اور جب آپ کے پیٹ میں روٹی نہیں ہو گی تو آپ بھوک سے مر جائیں گے۔ اور جب یہ بھوکوں مر جائیں گے تو یہ دنیا پھر عوام کے ہاتھوں لگ جائے گی۔