لائف سٹائلکالم

ہم اہم ہیں، چیزیں نہیں!

ڈاکٹر سردار جمال

ویسے تو ہم بہت سارے فکری مغالطوں میں پڑے ہوٸے ہیں مگر میں اس وقت صرف ایک مغالطے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا تعلق مستقبل سے ہے۔

ہم بحیثیت قوم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ہم ایسا ویسا کریں گے؛ میں بڑا ہو کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا، میں ڈاکٹر، انجینئر اور بڑا افسر بن کر ملک و قوم کے کام آؤں گا۔

سیاسی لوگ فرماتے ہیں ووٹ ملے تو وزیر مشیر بن کر قوم کی فلاں فلاں خدمت کروں گا۔ غرضیکہ سکول کالجوں، یونیورسٹیوں اور دینی مدارس میں سب اس امید سے پڑھتے ہیں کہ وہ قوم و ملک کے کام أٸیں گے۔

پتہ نہیں یہ سوچ کب تک رہے گی اور ہم کب مستقبل کا دامن چھوڑ کر زمانہ حال میں زندگی کا آغاز کریں گے۔ زندگی تو صرف اور صرف زمانہ حال ہے، مستقبل تو ہے نہیں۔ مستقبل تو ہم صرف "حال” کی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں، "کل” آج کی شکل میں ہاتھ آتا ہے مگر ہم ہمیشہ أج کو ایک اور "کل” پر قربان کرتے رہتے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ میں ایک بنگلہ بنا لوں گا پھر قوم و ملک کے لٸے مثبت قدم اٹھا لوں گا۔ بس زندگی کا مقصد ایک بنگلہ بنانا ہے۔ مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ بنگلہ ہے کیا چیز؟ بنگلہ تو محض اینٹوں کا ایک ڈھیر ہے۔ میں گاڑی خرید لوں گا مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ گاڑی ہے کیا چیز؟ بس صرف ٹین کا ایک ڈبہ ہے۔ پھر سوچتے ہیں کہ میں سونا خرید لوں گا مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ سونا ہے کیا چیز ؟ یہ تو فقط اک دھات ہے۔ کس نے سونے کو قیمتی کہا ہے؟ انسان نے خود اسے قیمتی سمجھ رکھا ہے۔ سونے نے خود آواز نہیں دی کہ میں قیمتی ہوں۔ یہ سب انسانی سوچ نے کیا ہے۔

اگر انسان نے ان تمام اشیاء کو ناچیز کہا تو یہ تمام کی تمام ناچیز ہی ہیں۔ مگر ہم نے اشیاء کے بارے میں غور نہیں کیا مثلاً آج کے زیورات کل غلامی کی علامات یا نشانیاں تھیں۔ غلامی کے دور میں غلام کی مختلف علامات اور نشانیاں تھیں؛ بعض کے گلے میں، بعض کی ناک میں اور بعضوں کے کان میں دھات سے بنی اشیاء آویزاں کی جاتی تھیں جن کو آج ہم نے زیورات کی شکل دی ہے۔ اگر عمیق نظر سے دیکھا جائے تو آج بھی سونے کو وسیلہ بنا کر عورت کو گھر کی لونڈی بنا دیا گیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کو محکوم رکھنے میں سونے کا بہٹ بڑا رول ہے۔

ہم ابھی تک زندگی کا مفہوم جاننے سے نالاں ہیں۔ ہم چیزیں اکٹھا کرنے اور ان چیزوں کی چوکیداری کرنے کو زندگی سمجھتے ہیں جو کہ سراسر کوکھلی اور اور بے معنی سوچ ہے۔ جب ہم سوچتے ہیں تو سوچنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم مستقبل میں چھلانگ لگانا چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے۔ منصوبہ بندی کا مطلب ہوتا یے مستقبل میں زندگی بسر کرنا جو کہ ایک شاندار خیال کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو کہ غیراہم چیزوں کو اہم بناتے ہیں۔ جو کہ درحقیقت اہم نہیں ہوتے۔ اور یہ ہم ہی ہیں کہ بعض چیزوں کو غیراہم سمجھتے ہیں۔ جو کہ درحقیقت اہم ہوتے ہیں۔

اہم اور غیراہم چیز میں واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ جو چیز موت آنے سے ختم ہو جاتی ہے وہ غیراہم ہے، مثلاً مال و دولت، جائیداد، نوکری اور گاڑی وغیرہ۔ جبکہ اہم وہ ہے جس کا موت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ موت آنے سے وہ دوبالا ہو جاتی ہے، مثلاً خدمت، تخلیق، مثبت زندگی اور انسانیت کی معراج وغیرہ۔

ہماری ان تمام بے راہ رویوں کی وجہ ہماری مادی سوچ ہے۔ ہر مادی سوچ انسان کو گمراہ کر دیتی ہے۔ مادی سوچ میں خود غرضی، لالچ، حرص اور انا ہوتی ہے۔ مادی سوچ صرف اپنے لیے کی جاتی ہے، اس میں انسانیت کی کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو سوچ و فکر صرف اپنے گرد گھمائی جاتی ہے وہ تخریبی ہوتی ہے۔ اس قسم کے نظریے اور فلسفے میں ہوس زدہ انسان خود بھی پھنس جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام فکری مغالطوں سے ہم باہر نکل آئیں۔ مگر کیسے نکل آئیں؟ مسئلے کا حل کیا ہے؟

ان تمام مسئلوں کا حل بہت آسان ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم ذرہ عقل و شعور سے کام لیں۔ ہم زمانہ حال میں رہتے ہیں۔ ہم کو ادھر ہی سے زندگی شروع کرنی چاہیے۔ ماضی گزر چکا۔ جو گزر گیا وہ مر گیا۔ ماضی مر چکا ہے اب وہ میرے ہاتھ نہیں آ سکتا۔ اس کو جانے دو۔ مستقبل کے بارے میں مت سوچنا۔ مستقبل ہے نہیں۔ مستقبل میں موت کے سوا کچھ اور نہیں ہے مگر وہ بھی زمانہ حال کی شکل میں ہاتھ آئے گا۔ اصل چیز زمانہ حال ہے۔

ہم حال میں جی رہے ہیں، حال میں ہارنا نہیں ہے۔ ہم جو کچھ ہار دیتے ہیں وہ ماضی، ماضی کو بھول جاؤ۔ ہم جو حاصل کر لیتے ہیں وہ حال ہے۔ اس کو انجوائے کرو۔ اس سے لطف اور مزے لے لو۔ اس کا شکریہ ادا کرو۔ شکریہ کے معنی ہیں لطف اندوز ہونا۔ شکریہ کے معنی ہیں زمانہ حال میں رہنا۔ زمانہ حال کا مقصد ہے زندہ رہنا۔ زندگی حال میں ہے۔ موت مستقبل میں، حال میں کوئی پریشانی اور کوئی مایوسی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ماضی میں ہے۔

ہم نے نقصان ماضی میں اٹھایا ہے۔ ہم کو کسی نے گالی ماضی میں دی ہے۔ ہم سے بے وفائی ماضی میں کی گئی ہے۔ ہمارا رقیب ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ وہ سب کچھ گزر چکا۔ وہ سب مر چکے، ان تمام مردوں کو دفنانا ہے، ان کو بھول جانا ہے مگر یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب ہم زندگی بسر کرنا شروع کریں۔

یہ تب ممکن ہے جب ہم حال پہ آ جائیں اور یہ سب تب ممکن ہے جب ہم فکری مغالطے سے باہر آئیں، یعنی ماضی میں رہنا اور مستقبل کے بارے میں فکرمند ہونا فکری مغالطہ ہے۔ فکری مغالطے سے آزاد یو کر ہم چیزوں سے چمٹنا چھوڑ دیں گے کیونکہ مذکورہ بالا تمام چیزیں ضمنی ہیں، اصل چیز انسانیت اور انسانی مرام ہے، حقیقت کی طرف جانا، آج سے آغاز کرنا اور آج ہی سے مثبت قدم اٹھا کر حقیقی زندگی بسر کرنا ہے۔

Sardar Jamal
ڈاکٹر سردار جمال پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی نظر مریض کے ساتھ ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہوتا ہے اور وہ اکثر ملکی اخبارات میں سیاسی و سماجی امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button