لائف سٹائلکالم

باجوڑ: زیتون کا معیار اٹلی اور سپین سے بھی بہتر

محمد سہیل مونس

پاکستان کے ضم شدہ اضلاع میں اگرچہ ایک جانب بہت سارے مسائل ہیں اور ابھی پوری طرح انتظامی امور بھی فعال نہیں جیسا کہ لوکل گوررنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس سال کے اوائل میں ضم شدہ اضلاع کے لئے ضلع و یونین کونسل کی سطح پر سیکرٹریز اور دیگر عملہ کی بھرتی کی گئی لیکن وہ عملہ کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ فنڈز کی عدم دستیابی ہے تو دوسری وجہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے عدم توجہی ہے، آج نہ ان کے لئے عارضی طور پر کہیں بیٹھنے کا معقول انتظام ہے اور نہ سہولتوں سے آراستہ دفاتر جبکہ اس سست روی کی ایک اہم وجہ حکومتی ایوانوں میں ہلچل اور غیریقینی کی سی کیفیت بھی ہے۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر ضم شدہ اضلاع میں تعمیر و ترقی اور دیگر کئی امور التواء کا شکار ہیں جس سے حرج یہاں کے عوام کا ہو رہا ہے جو کہ ایک قابل مذمت عمل ہے کیونکہ ان ابتدائی ایام میں اگر یہاں کے عوام حکومتی پالیسیز سے متنفر ہو گئے تو بات آگے کیسے بڑھے گی۔ ان تمام تر مسائل کے باوجود ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے پورے پاکستان اور خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے لئے پانچ ارب روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت موسمی لحاظ سے موزوں علاقوں میں بڑے پیمانے پر زیتون کی کاشت کا عمل شروع کیا جائے گا جس میں سے ضم شدہ علاقوں کے لئے پائلٹ پروگرام کے تحت اسی کروڑ روپے کئے جا چکے ہیں۔

اس منصوبہ کے تحت سات ضم شدہ اضلاع اور چھ سب ڈویژنز میں زیتون کی کاشت پر خطیر سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے پہلے فیز میں باجوڑ، تیراہ اور دیگر کئی علاقوں میں کام شروع کیا جا چکا ہے۔ ان علاقوں میں سیڈز ڈیپارٹمنٹ کی ٹیموں کے زیر سایہ اہل علاقہ میں سے کاشتکاروں اور زمینداروں کو پہلے مرحلہ میں بنیادی تربیت دی جائے گی، یہاں کے باسیوں کو زیتون کی افادیت کے علاوہ اس کی بوائی، رکھوالی اور دیگر بنیادی طریقوں سے آگاہ کیا جائے گا۔

وادی تیراہ کے جنگلات میں پہلے سے موجود جنگلی زیتون میں گرافٹنگ کر کے قابل منافع فصل بنانے کی سعی بھی اس منصوبے کا اہم حصہ ہے جبکہ ایک ایکڑ کی زیتون کی کاشت جس میں سے کم از کم سو سے لے کر ایک سو دس پودے اگائے جا سکتے ہیں جو مالک جائیداد کو دو سے ڈھائی لاکھ کا منافع دے سکتی ہے۔ سیڈز ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق زیتون کم پانی والے علاقوں میں بہتر نتائج دیتا ہے جبکہ زیتون کے ساتھ ہم مذید فصلیں بھی اگا سکتے ہیں۔

اس پراجیکٹ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کاشتکاروں و زمینداروں کی تربیت تو ان کے ذمہ ہے ہی لیکن زیتوں کی فصل کی تیاری کے بعد یہ لوگ ہیلپر کے طور پر فصل کی رکھوالی واسطے لوگ بھی ہائر کر سکتے ہیں جو ابتدائی ایام میں عارضی طور پر کام کریں گے لیکن کچھ عرصہ بعد فصل کے نتائج اطمینان بخش آنے پر ان کو مستقل بنیادوں پر رکھا جا سکے گا۔

زیتون کی کاشت بڑے پیمانے پر سیٹل ایریاز میں تلہ گنگ، ہری پور ہزارہ اور ضم شدہ اضلاع میں باجوڑ، مہمند، خیبر کے کرم علاقہ اور وزیرستان جیسے علاقوں میں ہو رہی ہے۔ سیڈز ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق باجوڑ اور سیٹل ایریاز کے زیتوں کی اوائل کی فصلوں سے جو زیتون کشید کیا گیا ہے اس کا معیار سپین اور اٹلی کے زیتون سے کئی درجہ بہتر ہے۔ان کا دعوی تھا کہ اگر متعلقہ محکمہ اور ان علاقوں کے کاشت کار جہاں یہ فصل لگائی جا رہی ہے اگر ذرا سی بھی توجہ اس کو دے پاتے ہیں تو چند سالوں میں ہم زیتون میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔

آج کی تاریخ میں ہم زیتون کا تیل امپورٹ کرنے پر کثیر سرمایہ خرچ کرتے ہیں لیکن اگر ہم نے ہمت نہ ہاری اور ان علاقوں میں جہاں کا موسم ان کے لئے سازگار ہے وہاں مستعدی سے اس کی کاشت پہ کام شروع کیا تو آنے والے دس برسوں میں ہم پاکستانی اولیو آئل ایکسپورٹ کرنے جوگہ بھی بن سکتے ہیں۔

ایک زمانے سے ہمارے قبائلی علاقے محض پوست اور بھنگ کی کاشت واسطے مشہور تھے جس کا استعمال کئی اہم بیماریوں کے لئے بھی تریاق سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے منفی پہلو سے بھی انکار ممکن نہیں جس نے نہ صرف دوسروں بلکہ ہماری اپنی نسلیں بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیں۔ اگر ہم نے ضم شدہ اضلاع کی غیراستعمال شدہ اراضی کو مثبت طریقے سے استعمال کیا اور یہاں سے نہ صرف زیتون بلکہ نت نئی فصلوں کی کاشت کا تجربہ کیا تو ہم بہت ساری کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں مثلاً ہم بہت زیادہ مقدار میں چائے پینے والی قوم ہیں اور سالانہ اربوں روپے ہم اس پراڈکٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ ہم نے جب چائے کی کاشت کا قصد کیا تو پاکستان کے کئی علاقوں نے اس مد میں بڑے بہتر نتائج دیئے۔

ہمیں زیتون اور چائے کے علاوہ بھی کئی اہم فصلوں کی کاشت پہ دیہاں دینا چاہیے تاکہ آنے والے برسوں میں ہم اس قابل ہو سکیں کہ وہی چیزیں جو کبھی ہم امپورٹ کرتے تھے ایکسپورٹ کرنے کے جوگہ بن سکیں۔ ہم میں سے آج کل بہت سارے سرسبز زمینوں کو ٹاؤن شپس کی نذر کر رہے ہیں لیکن ان عقل کے اندھوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اگر باقی ماندہ زمینیں بھی رہائشی منصوبوں کی بھینٹ چڑھ جائیں گی تو آپ اور میں کھائیں گے کہاں سے تو جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔

یہ جراثیم ضم شدہ اضلاع کو بھی چمٹ گیا ہے ان میں سے سرمایہ دار طبقہ اکثر و پیشتر بلند و بالا تجارتی مراکز تعمیر کرتے دکھائی دیتے ہیں، کسی کا رجحان سرے سے کاشت اور کھیتی بھاڑی کی جانب جاتا ہی نہیں۔ ان کی سوچ نہایت ہی عجیب ہے کروڑوں اربوں روپے بڑی بڑی بلڈنگز بنانے میں کھپا دیتے ہیں اور پھر عوام کو کرایہ پہ دے کر اپنی رقم سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ جہاں ان بلڈنگز میں عوام دکانیں اور کیا کیا کچھ بنا کر چین اور دیگر دنیا سے مال منگوا کر اپنے لوگوں کو تین اور چار گنا حساب سے فروخت کرتے ہیں کیا کبھی کسی نے یہ غور کیا ہے کہ ہم یہ اتنی محنت کی کمائی چین، امریکہ، جاپان اور دیگر کی جیبوں میں کیوں ڈالتے ہیں؟ کسی کے پاس بھی جواب نہیں۔

لوگ راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں کسی سے کیا محنت اور مشقت ہو گی کہ وہ زیتون کاشت کرے یا چائے اگائے بس دوسروں کی پراڈکٹس بیچتا جا اور زندگی کو انجوائے کرتا جا۔ اس طرح کی سوچ کا قلع قمع کرنا چاہیے کیونکہ ہماری بنیادی ضرورت غذاء ہے اور اگر ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل نہیں رہیں گے تو آخر میں ہمارا ہو گا کیا۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button