سیاستکالم

مقدس مقامات، ان کی حرمت اور ہم

ڈاکٹر سردار جمال

مسلمان اور خاص کر پشتون قوم جس طرح مذہب کے پکے تھے، بالکل اسی طرح مقدس مقامات سے بھرپور پیار اور دلی محبت کرتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ مساجد اور مدارس مقدس مقامات میں سے سرفہرست ہیں، یہاں شور شرابہ اور لڑائی جھگڑا تو دور کی بات اونچی آواز سے بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا مگر جب سے یہاں نام نہاد جمہوریت آئی ہے تو اس دن سے خاندانی اور طبقاتی سیاست کو قائم و دائم رکھنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، جن میں سے ایک حربہ مذہبی فرقہ واریت بھی ہے۔

ثور انقلاب کو روکنے کے لئے جب ”جہاد” کرنے کی ضرورت پڑ گئی تو ”بادار” (آقا) نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی خاطر پہلا وار سکولوں پر کیا، ایسا کرنے کے لئے مسجد سکول کھول دیئے گئے اور فقط ایک سو بیس روپے تنخواہ پر پیش امام کو سکول میں بھرتی کیا گیا جس کا کام سکول کے بچوں کو قاعدہ اور چند کلمات پڑھانا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مڈل اور ہائی سکولوں میں قاری صاحبان، اسلامیات اور عربی کے اساتذہ بھی بھرتی کئے گئے۔

اس زمانے میں مسجدوں اور مدرسوں سے جہادی مراکز کا کام لیا گیا، یہاں روس کے خلاف ملا حضرات لب کشا تھے اور روس کو کافر اور امریکہ کو اہل کتاب ثابت کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مذہبی فرقے دھڑا دھڑ رجسٹرڈ کئے جاتے تھے جو مساجد اور مدرسوں کو اکھاڑے کے میدان کی طرح استعمال کرتے تھے، جہاں مناظروں کی شروعات گالم گلوچ سے جبکہ اختتام خون خرابے پر ہوتا تھا۔ اگرچہ دین اسلام پیار، محبت، امن اور بھائی چارے کا دین ہے مگر ہم نے وہ احکامات چھوڑ دیئے جن میں انسانیت کی بھلائی ہے اور ان میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ دوسری طرف ہم جزوی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ جزوی اختلافات اگر ختم بھی ہو جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر یہ جزوی اختلافات اپنی جگہ قائم رہے تو بھی کوئی نقصان نہیں ہے۔

جب سے مدارس اور مساجد نے تجارتی مراکز کی شکل اختیار کی ہے اسی دن سے ان مقدس مقامات کو سیاسی مراکز کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ستم ظریفی اور ناانصافی پھر یہ کہ مساجد اور مدارس تمام شہریوں کے چندوں پر چل رہے ہیں، جن میں ملک کے تمام سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں جبکہ ووٹ صرف ایک مخصوص پارٹی کے لئے مانگا جاتا ہے۔ اگر مساجد اور مدرسوں کا کام صرف ووٹ مانگنا ہو تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ منبر پر بیٹھے حضرات ہر سیاسی پارٹی کے لئے ووٹ مانگا کریں کیونکہ یہ تمام مدارس اور مساجد مشترکہ مقدس مقامات ہیں۔ دوسری طرف اگر ان مقدس مقامات پر صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے تو پھر تمام سیاسی پارٹیوں کا حق بنتا ہے کہ ان کے بھی جھنڈے ادھر لہرائے جائیں۔

اگر ہمارے ہاں مقدس مقامات کا یہ بُرا حال مزید رہا تو ان خوبصورت اور تبرک والی جہگوں کا احترام عوام کے دلوں سے نکل جائے گا، جو بڑی حد تک نکل بھی چکا ہے، تو ایسا ہونے سے اس قِسم کے شرمناک واقعات رونما ہوں گے جس طرح کا واقعہ حال ہی میں، رمضان المبارک کے دوران، حرمین شریفین میں سامنے آیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم دنیا میں موجود کسی بھی مقدس مقام کو پاکستان میں موجود مقدس مقامات کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ان مقامات میں بدتمیزی تو کیا کسی کا خون بھی عام سی بات ہے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ ملک کی ہر مقدس جگہ سے سیاست اور فرقہ واریت کو نکالا جائے تاکہ عبادت خانوں کی تقدیس بحال ہو سکے اور ان مقدس اور پاک مقامات کی عزت اور حرمت کا خیال رکھا جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button