لائف سٹائلکالم

صنفی تضاد: ہمارے مغالطوں میں سرفہرست مغالطہ

ڈاکٹر سردار جمال

ویسے تو ہم بہت سارے فکری مغالطوں میں جکڑے یوئے ہیں مگر ان میں سرفہرست ایک مغالطہ صنفی تضاد کا مغالطہ ہے اور یہاں بھی ہم صرف جسمانی ساخت کی بنیاد پر مرد کو بہتر اور عورت کو کم تر سمجھتے آ رہے ہیں جو سراسر غلط یا غلط فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس بارے مرد کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ مرد کا جسم اعلٰی اور عورت کا جسم ادنیٰ ہے، دونوں اجسام ایک ہی قِسم کے اعضاء رکھتے ہیں، دونوں اجسام کی اناٹومی اور فزیولوجی میں کچھ خاص فرق نہیں ہے، البتہ مرد اور عورت کے بعض اعغضاء پر میل ہارمونز اور عورت کے بعض اعضاء پر زنانہ ہارمونز زیادہ اثر انداز ہوتے رہتے ہیں جو کہ کوئی کمزوری نہیں بلکہ اعضاء کی خصلت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ زیادہ مشقت اور کام کاج کی بناء پر مرد کا جسم عورت کی نسبت قدرے مضبوط ہوتا ہے مگر یہ کوئی جواز نہیں بنتا کہ مرد مضبوط پٹھوں کی بنیاد پر حاکم اور عورت محکوم رہے، اگر بات مضبوط پٹھوں کی ہو تو بیل اور ہاتھی سے مظبوط پٹھے کسی مرد کے ہو ہی نہیں سکتے۔

مرد کے مضبوط پٹھوں کا تصور زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ زمانہ قدیم میں بادشاہ مقرر کرنے کے لئے پٹھوں کا مضبوط ہونا اولین شرط تھی، پٹھوں کی مضبوطی کا تعلق مردانہ طاقت سے جوڑا جاتا تھا۔

تاریخ سے واضح ہے کہ بیٹیوں کو زندہ دفنانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ جب بادشاہ منتخب کرنا ہوتا تھا تو انتخاب کے لئے بااثر خاندانوں کے جوان میدان میں نکل آتے تھے اور ان کے مردانہ جنسی پٹھوں کا امتحان لیا جاتا تھا، ایسا کرنے کے لئے غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو میدان میں چھوڑا جاتا تھا اور بادشاہت کے امیدوار ان لڑکیوں سے کھلم کھلا زنا کرتے تھے اور جو پہلوان کھلے میدان میں خوب سیکس کرتا بلکہ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لڑکیوں سے زنا کرتا تو وہ جیت جاتا تھا اور بادشاہ منتخب کر لیا جاتا تھا، یہی وجہ تھی جب غریب کے گھر لڑکی پیدا ہوتی تو اپنی حیاء اور غیرت کی خاطر مجبوراً زندہ دفنا دی جاتی تھی۔

بیٹیوں کو آج بھی زندہ دفنایا جاتا ہے مگر شکل اب تھوڑی مختلف ہے، اس طرح شکل بااثر خاندانوں نے بھی تبدیل کر دیئے ہیں، وہ بااثر خاندان اب اشرافیہ کی شکل میں وار کرتے رہتے ہیں، ایسا کرنے کے لئے انہوں نے سیاستدان، قانون دان اور مذہبی پیشواؤں کے لبادے پہن رکھے ہیں۔ اس جدید دور میں عورت کو حقوقِ نسواں کے نام پر لُوٹ رہے ہیں، اب وہ پُرانے بااثر حضرات NGOs کے نام پر عورت تک رسائی کر رہے ہیں، اب وہ عورت کو قانون کا جھانسا دے کر اس کے جسم سے کھیلتے ہیں، اب بھی وہی پُرانا میدان ہے مگر کھلاڑیوں کی شکل قدرے مختلف ہے ورنہ یہ نظارے ہر کوئی خانقاہوں اور سرمایہ داروں کے کاروباری مراکز میں نئے انداز سے دیکھ سکتا ہے جس میں خوب صورت لڑکیوں کو آفس سیکرٹری کے طور پر اور یا استقبالیہ میں گلدستہ کے طور پر کاؤنٹر پر بٹھا کر گاہک کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔

عورت اب تک حقوق سے محروم ہے کیونکہ عام سی بات ہے کہ ادھر بشری حقوق کی تھوڑی بہت بات چل رہی ہے مگر بشری حقوق سے بشر یعنی مرد مراد ہے، اب تک عورت کو بشر سمجھا ہی نہیں گیا ہے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہاں حقوقِ نسواں کے نام پر بھی کچھ سننے میں آ رہا ہے مگر جو حقوق یا قوانین مرد بنا رہے ہیں تو ان میں بھلائی صرف ان کی ہو گا، عورت کے لئے وہ قوانین کارآمد ہوں گے جنہیں کوئی عورت ہی تیار کرے۔

جب تک صنفی سوچ رہے گی تو صنفی تضاد خواہ مخواہ رہے گا، جب تک لڑکیوں کا سکول، لڑکوں کا کالج، لڑکیوں کا کالج جیسی سوچ چلتی رہے گی تو صنفی تضاد کا ازالہ ممکن نہیں ہے، جب تک میل اور فی میل سے مراد صنفی تضاد ہو تو اس وقت تک تمام دعوے بے معنی ہوں گے، جب تک گاڑیوں میں عورتوں کے لئے الگ سیٹیں اور مردوں کے لئے الگ سیٹیں ہوں گی اور ہوٹلوں میں اس قِسم کے بینرز پڑھنے کو ملیں گے کہ "عورتوں کے لئے الگ پردے کا انتظام موجود ہے” یہ سب حرکات و سکنات صنفی تضاد کے گرد گھومتی رہتی ہیں، احترام لفظوں سے نہیں بنتا بلکہ یہ دل سے تعلق رکھتا ہے، دل تب صاف ہو سکتا ہے جب تضاد ختم کیا جائے ورنہ یہ سب شیطانی کاموں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

جب تک صنفی تضاد رہے گا اور عورت کو الگ مخلوق سمجھا جائے گا تو انسانی بستی تضاد کا شکار رہے گی، انتشار زدہ معاشرے میں امن نام کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں! بلکہ جنگیں لڑی جائیں گی، جہاں جنگیں لڑی جاتی ہیں وہاں عورت مزید مظلوم بنتی جاتی ہے کیونکہ یہ عجیب منطق چلی آ رہی ہے کہ جنگ ہمیشہ مرد نے چھیڑی ہے اور پھر جنگ میں نشانہ عورت ہی بن جاتی ہے، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ازل سے لے کر اب تک عورت نے نہ کوئی جنگ لڑی ہے نہ کوئی اسلحہ اور بارود ایجاد کیا ہے مگر پھر بھی مرد کی جنگوں کا کفارہ عورت سے لیا جاتا ہے جو مکمل ظلم اور بربریت ہے۔

عورت تخلیق کار ہے، وہ بچے تخلیق کرتی ہے، عورت خود بھی خوب صورت ہے اور دنیا کو بھی خوب صورت بنانا چاہتی ہے۔ اگر عورت کا بس چلے تو زمین سے تمام بارود ہٹا کر بیوٹی پارلر کی دکانیں کھول لے گی، اگر عورت کے بس میں ہو تو سطح زمیں کو پھولوں سے بھرے گی، وہ ہٹلر کی طرح جنگیں نہیں پھیلانا چاہتی وہ صرف اور صرف محبت بانٹنا چاہتی ہے، وہ گالیاں نہیں نکالنا چاہتی وہ سریلی آواز میں گانا، گانا چاہتی ہے، عورت فطری اور فطرت کے عین مطابق جینا چاہتی ہے، فطرت حسین اور مہربان ہے، اس طرح عورت بھی حسین و مہربان ہے، وہ محبت اور امن چاہتی ہے۔

اگر دنیا میں امن لانا ہے تو صنفی تضاد کا خاتمہ کرنا ہو گا، عورت کو انسان اور مرد کی ماں ماننا ہو گا ورنہ دنیا کی یہ نصف آبادی مفلوج رہے گی اور مفلوج مائیں مفلوج بچے پیدا کریں گی، اور مفلوج باشندے معاشرے کو آگے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتے رہیں گے۔

Sardar Jamal
ڈاکٹر سردار جمال پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی نظر مریض کے ساتھ ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہوتا ہے اور وہ اکثر ملکی اخبارات میں سیاسی و سماجی امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button