سیاستکالم

حکومت سے بے دخلی۔۔ کیا عمران خان کیلئے اچھا ہوا یا برا؟

انصار یوسفزئی

ملک میں پچھلے ایک ماہ سے جاری سیاسی سرکس اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور اس سرکس کے نتیجے میں عمران خان صاحب سابق جبکہ شہباز شریف صاحب ملک کے موجودہ وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن ان کیلئے پیچیدگیاں اتنی ہیں کہ وہ ابھی تک اپنی کابینہ فائنل نہیں کر سکے. ایک چیز کی وضاحت یہاں بڑا ضروری سمجھتا ہوں کہ بطور صحافت کے طالب علم کے میں عمران خان کے ایسے بے دخل کرنے پر خوش ہوں نا ہی مجھے کسی قسم کی افسردگی ہے ہاں البتہ ایک جمہوریت پسند پاکستانی ہونے کے ناطے میں ایک جمہوری عمل یعنی تحریک عدم اعتماد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر خوشی سے سرشار ضرور ہوں، کسی کی ناکامی اور کامیابی سے ہٹ کر!

عمران خان کے خلاف سازش ہوئی ہے یا نہیں میں اس پر بھی نہیں جاتا کیوں کہ یہ معاملہ اس وقت مبہم ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار صاحب کی نیوز کانفرنس میں بھی یہ بات کھل کر سامنے نہ آ سکی۔ اگرچہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ واضح کیا کہ کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی ہے لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بیرونی مداخلت ہوئی ہے جس سے پاکستان کے تھم ہوتے ہوئے سیاسی ماحول میں تھوڑی دیر کیلئے پھر شدت آنے لگی لہٰذا ہم اس بات سے قطع نظر کہ سازش ہوئی ہے یا نہیں اس کو سائیڈ پر رکھ کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ صورت حال یعنی عمران خان صاحب کی بے دخلی میں کیا ان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟

1) عمران خان صاحب 2018 میں بڑے بلند و بانگ دعوے کر کے اقتدار کی راہداریوں میں آئے تھے۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہیں کہ وہ بلند و بانگ دعوے کیا تھے، لہٰذا مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ سوا تین سالہ حکومت کے بعد عمران خان ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے سے بری طرح قاصر رہے۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنی پہلی تقریر میں یہ کہا تھا کہ اگر ہم نے یہ وعدے پورے نہ کئے تو ہم 2023 میں عوام میں جانے کے قابل نہیں ہوں گے اور یہی کچھ ہونے والا تھا مگر شائد اب نہیں، اب بازی پلٹ گئی ہے کیوں کہ عمران خان نے "امریکی کارڈ ” کو ایک نہایت بہترین انداز میں بہت ہی موزوں وقت پر استعمال کر کے پی ڈی ایم سرکار کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا جہاں سے نکلنا اس کیلئے کافی مشکل ہو گا کیوں کہ مدت انتہائی کم ہے اور اس کو زیادہ سے زیادہ پرفارمنس عوام کے سامنے شو کرنی ہے جو کہ ایک متحدہ حکومت کیلئے ایک مشکل ٹاسک ہے۔ تو کیا یہ خان صاحب کیلئے اچھا ہوا یا برا؟

2) عمران خان کی بے کار حکومت، تباہ حال معیشت اور بیڈ گورننس کو دیکھ کر یہی لگ رہا تھا کہ 2023 کے انتخابات میں ایک ذلت آمیز شکست عمران خان کے انتظار میں ہے مگر اب نہیں، اب عمران خان نے امریکی کارڈ کے ذریعے پاکستان کے عوام، خاص کر خیبر پختونخوا کے عوام کو اپنے حق میں کھڑا کیا، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کے ان ہی عوام نے عمران خان اور ان کی پارٹی کے لوگوں کو 2023 کے عام انتخابات کی کمپین میں چھپیڑے مارنے تھے لیکن اب یہ عمران خان کیلئے جان بھی دینے کو تیار ہیں، کیوں؟ کیوں کہ بقول ان کے اب عمران خان ان کا انتخاب نہیں بلکہ ان کی ضد ہے اور بات جب ضد پر آ جاتی ہے پھر آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ تو ایسے میں سوال بنتا ہے کہ کیا یہ خان صاحب کیلئے اچھا ہوا یا برا؟

3) عمران خان کی کارکردگی زیرو ہے لیکن اس کے باوجود یہ عوام میں بلا خوف آ رہا ہے، کیوں؟ کیوں کہ خان صاحب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ میں نے مارکیٹ میں امریکی کارڈ پھینک کر بیانیہ مکمل طور پر اپنے حق میں کر لیا ہے، لوگ مہنگائی اور بیڈ گورننس بھول چکے ہیں اور اگر لوگ نہیں تو تحریک انصاف کے ورکرز کم از کم ضرور بھول چکے ہیں جس میں فائدہ صرف اور صرف عمران خان کا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں میں پچھلے ایک ہفتے سے کئی ایسے لوگوں کو مل چکا ہوں جو کہہ رہے ہیں کہ ہم تحریک انصاف مکمل طور پر چھوڑنے والے تھے مگر اب عمران خان کے علاوہ ہمارا کوئی انتخاب نہیں ہے، ان کا ماننا ہے کہ اب یا تو عمران خان کو ووٹ دیں گے یا کسی کو بھی ووٹ نہیں دیں گے، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بیانیہ کس حد تک خان صاحب نے آنے والے انتخابات کیلئے اپنے حق میں کیا ہے۔ تو ایسے میں پھر یہ سوال بنتا ہے کہ کیا یہ خان صاحب کیلئے اچھا ہوا یا برا؟

4) سب سے بڑا فائدہ جو میرے نزدیک عمران خان کو ہوا وہ ان کی پارٹی سے ایلیکٹیبلز کا نکل جانا ہے۔ عمران خان کے پاس علی محمد خان، مراد سعید اور شہریار آفریدی جیسے گراس روٹ لیول کے مخلص ساتھی رہ گئے جو صرف اور صرف خان صاحب کی وجہ سے وفاقی وزراء بنے تھے، ان سے بڑھ کر کیا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی پارٹی صاف ہو گئی اور آپ آگے تحریک انصاف کے حقیقی خون کو ملحوظ خاطر رکھ کر آگے بڑھیں گے۔ تو کیا یہ خان صاحب کیلئے اچھا ہوا یا برا؟

5) خان کیلئے ایک حوالے سے یہ بھی اچھا ہوا کہ ان کو اپنی فاش غلطیوں پر نظر ثانی کا موقع ملے گا، بطور حکمران وہ کئی بلنڈرز کر چکے ہیں جو ان کو نہیں کرنے چاہئے تھے لہٰذا ان کے پاس اب وقت ہے کہ وہ ان سے سیکھ کر آگے بڑھیں۔ وہ اگر اس دوران اپنی غلطیاں ٹھیک کریں گے تو اس کا الٹیمیٹلی فائدہ بھی خان صاحب کو ہی ہو گا۔

6) میرے نزدیک ایک اور بڑا فائدہ جو عمران خان کو اس ساری کاروائی سے مل گیا ہے وہ سلیکٹڈ کا داغ دھونا تھا۔ اگرچہ یہ داغ اتنی آسانی سے دھلنے والا نہیں لیکن پھر بھی شہباز اینڈ کو اب ”سلیکٹڈ” بن چکے، کم از کم وہ عمران خان کو دوبارہ سلیکٹڈ نہیں کہہ سکیں گے اگر ان میں رتی برابر سیاسی پختگی ہوئی تو! تو لب لباب یہ کہ عمران خان سے اقتدار چلا گیا مگر انہوں نے اپنی سمارٹ حکمت عملی سے اتنا ضرور کیا کہ وہ عمران خان جن کی سیاسی قبر تیار ہو چکی تھی اور اس میں خان صاحب کی سیاست کو رکھنے کی دیر تھی وہ عمران خان اٹھ کر دوبارہ عوام میں جانے کے قابل ہوا اور پشاور جلسہ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے، یہ سب کچھ میں ذاتی طور پر خان صاحب کی سیاسی جیت تصور کرتا ہوں۔

انصار یوسفزئی اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ اس وقت بطور نمائندہ ایشیا فری پریس (اے ایف پی) سے وابستہ ہیں۔ یوسفزئی روزنامہ آئین پشاور، روزنامہ شہباز پشاور اور ڈیورنڈ ٹائمز کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایڈورڈز کالج پشاور اور نمل اسلام آباد سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے.
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button