ڈاکٹر سردار جمال
مملکت خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک صرف دو قسم کی خوشیاں منائی جاتی ہیں: جب کوئی نیا آقا آ کر کرسی سے چِمٹ جاتا ہے تو اس پاک سرزمین کے لوگ اس نیت سے خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں کہ اب بہت جلد غریب عوام کا حال بہتر ہو جائے گا، بے روزگاری ختم ہو جائے گی، مہنگائی چلی جائے گی، امن کا بول بالا ہو جائے گا، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کا دور ختم ہو جائے گا اور سب سے بڑھ کر عوامی خزانے کو لوٹنے والے چور پکڑے جائیں گے اور ساتھ ساتھ غریب عوام کی جو دولت کھائی گئی وہ تمام کی تمام چور اگل لیں گے۔
مگر ادھر گنگا ہمیشہ الٹی ہی بہہ رہی ہے، جب نئے آقا کرسیوں پر قبضہ جما دیتے ہیں تو لوٹ کھسوٹ اور اقرباء پروری کا بول بالا شروع ہو جاتا ہے، اس وقت عوامی خزانے پر ”یرغل” (حملہ) کیا جاتا ہے اور جو تھوڑا بہت بچا ہوا ہوتا ہے وہ سب کے سب نئے آئے ہوئے بھوکے حضرات چند لقمے کر دیتے ہیں۔
ہر نیا آنے والا آقا عجیب تاش کھیلتا ہے، اس کے منہ سے ایک ہی بات ٹپک رہی ہوتی ہے کہ سب کچھ کیا دھرا پچھلی حکومتوں کا ہے، خزانہ مکمل خالی ہے، ہمیں تباہ حال پاکستان ملا ہے، اس سے پہلے تمام حکومتیں چور تھیں۔ یہ اقوال زریں پارلیمان میں بیٹھے ہوئے قوم کے غمخوار غور سے سنتے ہیں اور داد دینے کی نیت سے آقائے اعظم کے سنہری الفاظ پر تالیاں بجاتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ تالیاں بجانے والے گزری ہوئی تمام حکومتوں میں حصہ دار تھے، چونکہ پارلیمانی آقاؤں کو اپنی قوم کا حافظہ اچھی طرح معلوم ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ اپنی قوم کی کمزور یاداشت سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہے ہیں۔
نئے آقاؤں سے جب آفت زدہ اور مصیبت زدہ غریب عوام دل برداشتہ ہو جاتے ہیں تو اس وقت کہانی کی دوسری قسط شروع ہو جاتی ہے۔ اب بے چارے عوام سوچتے رہتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے جو سبز باغ دکھائے گئے تھے، وہ سب بھاڑ میں گئے، اب مسئلے کا حل یہ ہے کہ ان ظالموں سے چھٹکارہ پایا جائے۔ ایسا کرنے کے لئے وہ پرانے رباب پر نئی تار چڑھانے میں لگ جاتے ہیں، ان کی زبانوں پر ان باتوں کی تکرار ہوتی ہے کہ ان موجودہ آقاؤں سے گزرے ہوئے آقا بہت اچھے اور بہتر تھے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی گھوڑے پر وہی پُرانا سیاسی گھڑ سوار بٹھایا جائے کیونکہ وہ بہت اچھے اور ماہر سیاسی کھلاڑی تھے۔
ایسا کرنے کے لئے پہلے چھوٹے چھوٹے جلوس نکالے جاتے ہیں، جن میں سبکدوش سیاسی کھلاڑی کی تصاویر کے ساتھ ساتھ دلفریب نعرے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جلسے جلوس بڑھا دیئے جاتے ہیں جن میں زندہ باد اور مُردہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں، وقتاً فوقتاً روڈ بلاک کی جاتی ہے، مار کٹائی ہوتی رہتی ہے اور گرفتاریاں بھی کی جاتی ہیں، آخرکار یعنی مسلسل دو، تین سال تک لگائے گئے مُردہ باد کے نعرے ثمرات دیتے ہیں، اگرچہ اس وقت حکومت اکثر پانچ سال پوری کر دیتی ہے اور یا کبھی کبھار مڈ ٹرم انتخابات کئے جاتے ہیں جس کی بدولت سیاسی گھوڑے پر پُرانا آقا جو نئے آقا کا چچازاد ہوتا ہے، اسے سوار کیا جاتا ہے اور اس طرح حسبِ عادت خوشیاں منائی جاتی ہیں اور نعرے لگائے جاتے ہیں کہ پُرانے آقا سے نجات مل گئی اور نیا آقا ہاتھ آیا، مگر کہانی وہ پُرانی ہوتی ہے لیکن اگر کہانی میں تھوڑا بہت فرق دیکھا جاتا ہے تو وہ صرف کہانی کی پہلی یا دوسری قسط کا ہوتا ہے۔
اصل اور حقیقت پر مبنی بات یہ ہے کہ یہاں سیاست سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور جاگیرداروں کے لئے کھیل کا میدان ہے جس میں وہ کود کر اپنے ہم پلوں کے خلاف زور آزمائی کرتے ہیں، اکھاڑے کے میدان میں جو جیت جاتا ہے تو وہ مملکت خداداد کے آئین سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے، اپنے حریف کو پھنسانے کے لئے کبھی آئین میں نئی دفعات شامل کر دیتے ہیں اور کبھی پُرانی دفعات نکال دی جاتی ہیں، ان صوابدیدی اختیارات کو ترمیم یا ترامیم جیسے گراں قدر نام دیئے جاتے ہیں۔
پہلے سے لے کر اب تک غریب عوام نے کبھی اس قدر سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ یہ سب سٹیج ڈرامے ہیں، کوئی سٹیج سے اتر آتا ہے اور کوئی سٹیج پر چڑھ جاتا ہے، ان تمام ڈراموں میں عوام صرف اور صرف تماشبین ہیں جن کو یہ تمام ڈرامے مہنگے داموں پڑتے ہیں، ان ڈراموں کو دیکھنے کی خاطر غریب عوام بھاری بھر ٹیکس بھی دیتے ہیں، مہنگائی کا بھی سامنا کرتے ہیں اور بے روزگاری سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔
ان تمام ڈراموں کو سمجھنے کے لئے شعور کی ضرورت ہے، شعور علم حاصل کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور علم اپنی مادری زبان میں پایا جاتا ہے، کیونکہ زبان میں ایک قوم کا کلچر، روایات اور اقدار چُھپی ہوتی ہیں، جو قوم اپنی زبان اور اپنی روایات اور اقدار سے باخبر ہو تو وہ قوم تماشائی نہیں بنتی بلکہ اپنی مٹی پر اپنے اختیار کے ساتھ رِہ کر خوش و خرم رہتی ہے۔