انصار یوسفزئی
میڈیا کے حوالے سے ہر ایک حکومت کی اپنی اپنی پالیسی ہوتی ہے، کوئی میڈیا کو ٹائٹ رکھتا ہے، کوئی نرم پالیسی اپناتا ہے اور کوئی درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے اور یہ اس لیے کیوں کہ میڈیا عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ عوام کے مسائل اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانا اور حکومت کی پالیسیوں کی عوامی مفاد کیلے تشہیر کرنا میڈیا کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اسی مناسبت سے میڈیا اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے مگر افسوس کہ ایک یا دو حکومتوں کو چھوڑ کر باقی ساروں نے اس چولی دامن کو خوب جکڑ کے رکھا۔
پاکستان جس ماحول میں معرض وجود میں آیا تھا اس وقت دنیا واضح طور پر دو بلاکس میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک بلاک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا تھا جو کیپیٹلزم کے داعی تھے اور دوسرا بلاک روس اور اس کے اتحادیوں کا تھا جو کمیونزم کے ساتھی تھے۔ پاکستان کی شروع سے یہ خرابی رہی ہے کہ یہ عالمی معاملات پر غیرجانب دار رہنے کا آپشن سرے سے استعمال کرتا ہی نہیں ہے، اس نے ہمیشہ کسی نا کسی کی طرف داری ضرور کرنی ہے، کسی نا کسی کی وکالت ضرور کرنی ہے اور یہ بات طے ہے کہ جب آپ ایک کی وکالت کرتے ہیں تو آپ نا چاہتے ہوئے بھی دوسرے کے دشمن اور مخالف بن جاتے ہیں۔
ہماری جو پہلی لیڈر شپ تھی اس کو امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین اور روس کے صدر جوزف اسٹالن دونوں کی طرف سے دعوت آئی تھی مگر لیاقت علی خان نے روس کی بجائے امریکہ جانے کو ترجیح دی جبکہ ہمارے پاس انڈیا کی طرح غیرجانب دار رہنے کا آپشن بھی موجود تھا۔ ہم نے ایک کی دعوت قبول کر کے دوسرے کی ناراضگی مول لی جس کا ہمیں شروع میں نقصان ہوا اور اس کا خمیازہ کسی نا کسی صورت ہم پاکستانی آج بھی بھگت رہے ہیں جبکہ انڈیا نے غیرجانب دار رہ کر جو فائدے سمیٹے اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سب سے بڑا فائدہ جو انڈیا نے اس غیرجانب داری کے ذریعے حاصل کیا وہ عالمی دنیا کا اعتماد ہے۔
پاکستان جب امریکی کیمپ میں چلا گیا تو وہ صحافی جو کمیونزم کا پرچار کرتے تھے ان کیلئے مشکل پیدا ہو گئی، سینکڑوں کی تعداد میں پروگریسیو صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا جن میں مشہور اور معروف فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔
پاکستان میں صحافیوں کو شروع سے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ آج ریاست مدینہ کے امیر المومنین نیازی کے دور میں بھی جاری و ساری ہے جو ماضی قریب میں آزاد میڈیا کے سب سے بڑے علمبردار مانے جاتے تھے اور حامد میر صاحب کو پاکستانی صحافت کا بے تاج بادشاہ قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے مگر وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ آج وہی بے تاج بادشاہ حامد میر صاحب آزاد میڈیا اور جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن عمران خان کی حکومت میں ٹی وی سکرین و اخبارات سے باہر ہیں جو نیازی کے آزاد میڈیا پر بہت بڑا سوال ہے۔
میڈیا کے حوالے سے عمران خان کی حکومت کی پیکا آرڈیننس میں کی گئی ترمیم کی طرف میں بعد میں آتا ہوں، پہلے میڈیا کے حوالے سے یہ ملاحظہ کیجئے۔ 7 اکتوبر 1958 کو جب ایوب خان ملک میں لگائے گئے پہلے مارشل لا کی بدولت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو ساتھ ہی صحافیوں کے برے دن شروع ہو گئے۔ ایوب دور میں پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس (1962) کے ذریعے صحافت کا گلا دبا کر رکھا گیا۔ یہ پاکستان میں صحافت پر پہلا سرکاری حملہ تھا۔ صحافت کو پہلی مرتبہ سرکاری تحویل میں لے لیا گیا جس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ ایوب حکومت پر تنقید کرنا جرم بن گیا تھا اور 60 سے 70 ایسے چھوٹے بڑے اخبارات بند کر دیئے گئے اور 80 سے 100 کے قریب معروف اور غیرمعروف صحافیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا جو ایوب مارشل لا کے سخت ترین نقاد تھے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے ذریعے خبروں کی خوب چھان بین کی جاتی تھی اور کوئی بھی خبر جو ایوب حکومت کے خلاف ہوتی اس کو من و عن سنسر کر دیا جاتا۔ المختصر یہ کہ ایوب دور میں میڈیا مکمل طور پر پابند سلاسل رہا۔ پھر 1984 میں جا کر عدالت نے پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس (1962) کو ختم کر دیا مگر چوں کہ ضیاء مارشل لا چل رہا تھا تو میڈیا بدستور آزادی کیلئے جدوجہد کرتا رہا۔
بھٹو دور میں میڈیا کو تھوڑی بہت آزادی ضرور ملی لیکن چوں کہ بھٹو بھی آمروں کے ساتھ رہے تھے تو ان کی سوچ بھی کبھی کبھی آمرانہ ہو جاتی تھی، انہوں نے بھی میڈیا کو کھل کر آزادی نہیں دی اور جب پی این اے کی تحریک شروع ہوئی تو تحریک کا ساتھ دینے والے صحافیوں کیلئے مشکلات پیدا کر دی گئیں۔ 1989 میں صدر غلام اسحاق خان نے رجسٹریشن آف پرنٹنگ پریس آرڈیننس نافذ کر کے میڈیا سے واچ ڈاگ کی حیثیت ایک بار پھر چھین لی گئی جبکہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اس کے خلاف تھیں مگر صدر غلام اسحاق خان کے سامنے بے بس رہیں۔ بے نظیر بھٹو یہ سمجھتی تھیں کہ ضیاء مارشل لا میں میڈیا کو قید میں رکھا گیا تھا اور اب جمہوری دور ہے لہٰذا میڈیا نے اپنی بھڑاس ضرور نکالنی ہے۔
ڈکٹیٹر پرویز مشرف ایمرجنسی میں ایوب دور کا پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس (1962 ) پیمرا کی شکل میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ سختی سے نافذ کر دیا گیا۔ جیو نیوز اور اے آر وائی نیوز جو اس وقت دبئی سے اپنی نشریات کرتے تھے کچھ عرصے کیلے بند کرا دیئے گئے اور ان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سینئر صحافی حامد میر جیسے بڑے نام مشرف دور میں صحافت سے نکالے گئے۔ 3 نومبر 2007 میں میڈیا انڈسٹری کو ایک غیرقانونی نوٹس کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ تمام چینلز اور اخبارات کو پیمرا کی طرف سے نوٹسز جاری کئے گئے۔ پاکستان کے سب سے قابل اعتبار سینئر صحافی اور اس وقت کے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکرٹری جنرل مظہر عبّاس صاحب کے بقول انہوں نے اس کا بھرپور جواب دیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور احتجاج کی کال دے دی۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ایک بات کا کریڈٹ ضرور دینا ہو گا کہ ان کے دور میں میڈیا چینل دھڑا دھڑ کھولے گئے مگر دوسری طرف یہ وقت کی ضرورت بھی تھی، مشرف چاہتے بھی تو اس کو نہیں روک سکتے تھے۔ ایک بات جو بڑی واضح اور معلوم ہے کہ جب بھی ہم ڈکٹیٹر شپ سے جمہوریت کی طرف آئے ہیں میڈیا نے کچھ اچھے دن ضرور دیکھے ہیں مگر زیادہ دیر تک نہیں۔ مشرف مارشل لا کے اختتام پر آصف زرداری ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تو میڈیا نے کچھ سکھ کا سانس ضرور لیا۔
تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف نے میڈیا پر کوئی بڑی خاص پابندی نہیں لگائی مگر ان کی آخری باری میں پیکا کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس سے ان کے ادوار میں صحافیوں کو انفرادی طور پر یرغمال ضرور کیا گیا، جس میں اب عمران خان کی حکومت نے ترمیم کر کے اس کو صحافیوں کیلئے مزید سخت کر دیا ہے۔ 2018 میں تبدیلی کے نام پر بننے والی اس حکومت نے، جو میڈیا کی آزادی کے بڑے بلند و بانگ دعوے کرتے تھے، میڈیا کا وہ حشر کیا جو شائد ہی کسی بھی جمہوری حکومت میں میڈیا کا ہوا ہو۔ تحریک انصاف حکومت بنتے ہی وہ صحافی نیوز روم سے غائب ہونا شروع ہوئے جو نیازی حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ ایک بات بتاتا چلوں حکومت کی غلط پالیسی اور غلط اقدام پر تنقید کرنا صحافی کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے مگر تحریک انصاف حکومت نے ایسے درجن بھر صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں سے برخاست کیا ہے جو سچ کا پرچار کرتے تھے۔ ان صحافیوں میں مطیع الله جان، طلعت حسین (جن کی چند دن قبل نیو نیوز میں دوبارہ واپسی ہوئی ہے لیکن تین سال باہر رہے)، ڈاکٹر دانش، نصرت جاوید، مرتضیٰ سولنگی اور حامد میر جیسے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اس حکومت نے چینل 24 کو تین مہینے تک غیرقانونی طور پر بند رکھا جو اس دور میں سنسرشپ کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء آزاد میڈیا کی بات کر کے تھکتے نہیں ہیں مگر 2019 کے JUI دھرنے میں اس آزاد میڈیا کا پول جیو نیوز نے کیا ہی شاندار طریقے سے بے نقاب کیا تھا۔ جیو نیوز کی نیوز اینکر علینا فاروق شیخ نے کہا "چوں کہ ہمیں مولانا فضل الرحمن کو براہ راست دکھانے سے منع کیا گیا لہٰذا ہم مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس مزید دکھانے سے قصر ہیں۔” مطیع اللہ جان کو اٹھانا، اسد طور پر تشدد کرنا، ابصار عالم پر گولی چلانا یہ اس حکومت کے ایکسٹرا آرڈنری کارنامے تو ہیں ہی لیکن اب پیکا آرڈیننس میں ترمیم کر کے اس حکومت نے اپنے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔
اتوار کے دن صدر مملکت عارف علوی صاحب نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) میں ترمیم کر کے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا۔ اس ترمیم کا مقصد جعلی خبریں روکنا بتایا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس فعل کو قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے اور اس الزام میں کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا۔ نئی ترمیم کے مطابق کسی فرد کے تشخص پر حملے کی سزا تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے اور تشخص کی تعریف میں ایسوسی ایشن، ادارے، تنظیم یا اتھارٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے جو حکومتی قوانین کے تحت قائم کی گئی ہو۔ اس نئی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ اس نوعیت کے کیسوں کا چھ ماہ کے اندر فیصلہ ہو گا۔
اس نئی ترمیم میں جو خرابیاں ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک تو جمہوری روایات سے ہٹ کر یک طرفہ قانون سازی کی گئی ہے جو جمہوریت کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ دوسرا یہ کہ اس میں فیک یا جعلی نیوز کی واضح تعریف نہیں کی گئی، یعنی اس کا تعین نہیں کیا گیا کہ کون سی خبر فیک نیوز تصور ہو گی۔ تیسرا نقطہ جو میرے خیال میں سب سے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے انوسٹی گیٹو رپورٹنگ جو میڈیا کی جان ہوتی ہے، وہ سرے سے ختم ہو جائے گی کیوں کہ کسی بھی جعلی خبر کے الزام میں صحافی کو جیل بھیج دیا جائے گا، خواہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت کیوں نہ ہوں۔
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اس کو عدالت میں چیلنج کیا۔ پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے عدالت کو بتایا کہ پیکا ایکٹ 2016ء میں ترامیم کر کے ایف آئی اے کو کسی شکایت کی انکوائری کے بغیر گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّه نے پیکا آرڈینینس 2022ء کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے 24 فروری کو اٹارنی جنرل کو اس معاملے پر مزید سماعت کیلئے عدالت میں طلب تو کر لیا، ان سے مزید معاونت بھی طلب کی اور کیس کی سماعت ملتوی کر دی، لہٰذا اب دیکھنا ہو گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھا مگر ایک بات جو بالکل واضح ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کی موجودہ حکومت میں میڈیا کا جو حشر ہوا وہ شائد کسی ڈکٹیٹر کے دور میں ہوا ہو۔ اس حکومت میں کئی چینل و اخبارات سخت مالی دباؤ کا شکار ہو کر بند ہوئے، ہزاروں صحافی بے روزگار ہوئے اور کئی ادارے مقروض ہو گئے۔ اس حکومت میں پاکستان صحافت کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں 138 سے 145 ویں پوزیشن پر چلا گیا۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ انسان کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ طاقت کے نشے میں مدہوش ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح آج کل عمران خان اقتدار کے نشے میں مدہوش ہے مگر اس کو ایک بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس حکومت نے بھی میڈیا سے پنگا لیا ہے وہی حکومت اپوزیشن میں آ کر اسی میڈیا کی محتاج ہوئی ہے۔