جرائم

لکی مروت: سول جج پر وکلاء کے تشدد کی اصل کہانی کیا ہے؟

غلام اکبر مروت

جمعرات کو ڈسٹرکٹ بار لکی مروت کے صدر نے دیگر وکلاء سے مل کر سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ پر لاتوں اور مکھوں سے تشدد کیا۔ تھانہ غزنی خیل لکی مروت میں درج ایف آئی آر کے مطابق سول جج عمر عظمت خان نے پولیس کو بتایا کہ وہ عدالت میں موجود تھے کہ تقریباً 10 بجے کے بعد فرمان خان ایڈووکیٹ دیگر وکلاء آصف اقبال، میر ہمایون خان، جوہر یعقوب خان اور حبیب اللہ کے ہمراہ آئے، اس دن ان کا ذاتی کیس تھا، وکلاء نے بدتمیزی اور گالی گلوچ کی۔ اس دوران آصف اقبال ایڈوکیٹ اور فرمان خان نے ڈائس پر چڑھ کر فائل میرے سر پر دے ماری اور دست وگریبان ہو کر لاتوں اور مکوں سے زدوکوب کرنا شروع کیا جس سے میں بائیں پنڈلی پر زخمی ہوا۔ انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وکلاء نے ان کی قمیض کو پھاڑ دیا، عدالتی فرنیچر ریکس وغیرہ کو نقصان پہنچایا جبکہ عدالت میں خوف وہراس پھیلنے سے سائلین بھاگ گئے۔ اس دوران عدالتی سٹاف نے ان کی گلو خلاصی کرائی۔

سول جج عمر عظمت نے وجہ عداوت بیان کرتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ چندروز قبل آصف اقبال ایڈوکیٹ کے ایک ذاتی کیس میں سٹیٹس کو  کی درخواست حکم عدولی کو خارج کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی زدوکوبی،خوف وہراس پھیلانے، عدالتی املاک کو نقصان پہنچانے اور کارسرکار میں مداخلت کی دعویداری کی ہے۔ پولیس تھانہ غزنی خیل نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔

قانونی ماہرین کے مطابق سول جج عمر عظمت کی ایف آئی آر میں اگرچہ دہشت گردی کی دفعہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے لیکن پولیس کسی بھی وقت دہشتگردی کا دفعہ شامل کر سکتی ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ عمر عظمت نے مجھ پر تشدد کیا ہے۔ فرمان خان ایڈووکیٹ

ٹی این این کی جانب سے رابطہ پر فرمان خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سول جج عمر عظمت کا رویہ سائلین اور وکلاء کے ساتھ مناسب نہیں تھا، ہر وقت عدالت سے غائب رہتے تھے، ان کے خلاف ہائی کورٹ کو کئی بار درخواستیں بھیجی گئی ہیں لیکن ہائی کورٹ بھی کوئی ایکشن نہیں لے رہی تھی، موکلین روزانہ وکلاء کے ساتھ دست و گریباں رہتے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔

انہوں نے کچہری پر تعینات پولیس سیکیورٹی انچارج کو اپنی تحریری درخواست میں کہا ہے کہ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ نمبر 7 عمر عظمت کی عدالت میں ایک کیس کے سلسلے میں موجود تھا، دوران سماعت سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ کا رویہ نامناسب اور جارحانہ تھا، جج صاحب نے عدالت سے اتر کر مجھے گریبان سے پکڑا اور زدوکوب کرنا شروع کیا جس سے ایک آنکھ پر زخمی ہوا، دیگر وکلاء نے جج کو مجھ پر تشدد سے روکنے کی کوشش کی تو وہ مزید غصہ ہوئے اور دوڑ کر سائیڈ روم سے پستول لے کر آئے اور تان کر جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے تاہم دیگر وکلاء نے بیچ بچاؤ کر کے جان بچائی۔

تشدد ہم نے نہیں ہم پر ہوا ہے۔ صدر آصف اقبال ایڈوکیٹ

ڈسٹرکٹ بار لکی مروت کے صدر آصف اقبال ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جب بھی وکلاء کا مسئلہ ہوتا ہے تو ہر صدر پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرے، اسی طرح میں بھی فرمان خان ایڈووکیٹ کے مسئلے کو حل کرنے اور جوڈیشل مجسٹریٹ کو مطمئن کرنے عدالت گیا، ”ہم نے جج پر کوئی حملہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے ڈائس سے اتر کر ہم پر حملہ کیا ہے اور ہمارا ایک ساتھی معمولی زخمی بھی ہے، عدالت میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سول جج عمر عظمت کے خلاف ان کے نامناسب رویے سے متعلق پہلے بھی کئی درخواستیں سیشن جج کے پاس جمع ہیں اور انہیں ہمیشہ دوسری جگہوں سے بھی شکایات پر ٹرانسفر کیا گیا ہے، پرسوں بھی ہم ایک وکیل کے ذاتی کیس کے حوالے سے ان کے پاس گئے جس میں کسی وکیل کا وکالت نامہ جمع نہیں تھا لیکن جج صاحب بضد تھے کہ وکلاء اس میں جرح کریں گے اور جب ہم نے ان کو سمجھانا چاہا کہ اس کیس میں ہم کس طرح جرح کریں گے تو انہوں نے ڈائس سے اتر کر ہم پر حملہ کیا۔

آصف اقبال ایڈوکیٹ کے مطابق جج صاحب نے ہمارے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں ہم نے ضمانت قبل از گرفتاری کی ہے کیونکہ ہم قانون کی پاسداری کرنے والے ہیں جبکہ وکلاء کی جانب سے بھی متعلقہ سول جج کے خلاف مقدمہ کے اندراج کیلئے پولیس کو باقاعدہ درخواست دے دی گئی ہے، جج صاحب ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جج ہیں تو ان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے لکی مروت،بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کرک کے وکلاء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اس مسئلے کے بارے میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔

خیال رہے کہ وقوعہ رونما ہونے کے بعد عدالتی عملے نے عدالتوں کو تالے لگاکر کام کرنا چھوڑ دیا تھا تاہم اگلے روز سے معمول کے مطابق عدالتیں کھلی ہیں۔

ڈسٹرکٹ بار لکی مروت نے 25 فروری سے مکمل عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ بار لکی مروت کے ساتھ ڈسٹرکٹ بار ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور کرک نے بھی یکجہتی کااظہار کیا ہے اور 25 فروری کو مکمل عدالتی بائیکاٹ کیا۔

خیبر پختونخوا میں اس سے قبل بھی تین ججوں کے ساتھ اس سے ملتے جلتے ناخوشگوار واقعات پیش آئے جو سب لکی مروت میں تعینات رہے ہیں۔

سول جج نمبر 7 عمر عظمت اس قبیل کے چوتھے ممبر جبکہ دستیاب معلومات کے مطابق تشدد کا نشانہ بننے والے خیبر پختونخوا کے پہلے جج بن گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں کسی جج پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ظاہر شاہ مروت ایڈوکیٹ

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری اطلاعات ظاہر شاہ مروت ایڈوکیٹ نے لکی مروت میں سول جج اور وکلاء کے درمیان پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ابھی تک کوئی قابل ذکر پرتشدد واقعہ پیش نہیں آیا ہے البتہ تنازعات پیدا ہوئے ہیں، جو بروقت بنچ اور بار نے افہام و تفہیم سے حل کئے ہیں۔

”ماضی میں پشاور، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بنچ اور بار کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے جس پر وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ بھی کیا اور مسئلہ حل کر لیا گیا۔ یہ واقعات کسی وکیل کے ذاتی مسئلے پر نہیں بلکہ عوام کو درپیش مشکلات پر تھے، پرتشدد واقعات سب سے زیادہ پنجاب میں پیش آتے ہیں۔ سندھ میں کراچی کی حد تک پیش آتے ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات پیش نہیں آئے، میں یہی کہوں گا کہ ایسے واقعات کو بروقت حل کرنے کیلئے بنچ اور بار کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔” ظاہر شاہ مروت نے بتایا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button