انصار یوسفزئی
آپ کو معلوم ہو گا کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، ان کو اپوزیشن وقت کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا رہا ہے جس طرح عمران خان خود کبھی ماضی قریب میں نواز شریف حکومت کیلئے درد سر ہوا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں ان کو نا صرف بطور وزیر اعظم تسلیم کرنے سے انکاری رہیں بلکہ انہیں وزیر اعظم کی بجائے سلیکٹڈ کا نام بھی دیا گیا۔
شروع شروع میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق الگ الگ چالوں سے عمران خان اور ان کی حکومت کی مخالفت کی مگر یہ طریقِ مخالفت کارگر ثابت نہ ہوا۔ اس کے ساتھ کئی اور ہتھکنڈے بھی عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے آزمائے مگر سب بے سود رہے۔ جب تمام حربے ناکام رہے تو 20 ستمبر 2020 کو اپوزیشن جماعتوں نے باہمی اشتراک سے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کر کے عمران خان کو ہٹانے کیلئے مسلسل جلسے اور جلوسوں کی ابتدا کی۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ وہ سٹریٹ پاور اور ان جلسے جلوسوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر عمران خان کو مستعفی کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن پی ڈی ایم تحریک کے بالکل وسط میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بوجوہ پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کی، اور یوں یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی اور جس مقصد کیلئے بنائی گئی تھی وہ مقصد کوسوں دور رہ گیا۔
بہرحال تحریک ٹوٹ گئی، پیپلز پارٹی الگ ہو گئی، تحریک اپنی چال چلاتی رہی اور پیپلز پارٹی اپنی مگر عمران خان کے خلاف کامیابی کسی کو نہیں مل رہی تھی بلکہ اپوزیشن مزید ذلیل و خوار ہو رہی تھی اور اس کی ایک جھلک حال ہی میں سینیٹ میں دیکھنے میں آئی کہ اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو اسٹیٹ بینک خودمختاری بل میں خفت اٹھانا پڑی۔ وہ اپوزیشن جو باہر آ کر عوام کے سامنے بڑھکیں مار مار کر رور رہی ہے سوال تو بنتا ہے کہ سینیٹ کے اتنے اہم بل میں خاموش کیوں رہی؟ اس کے درجن بھر سینیٹر اتنے اہم موقع پر غائب کیوں رہے؟ اپوزیشن کے پاس عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کیلئے جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو وہ موقع ہاتھ سے کیوں جانے دیا جاتا ہے؟ ایسے میں تو یہ سوال بھی بنتا ہے کہ اپوزیشن تحریک پی ڈی ایم کی ناکامی، سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی ناکامی کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کیوں لائی جا رہی ہے؟ اس تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ کتنی اہم ہے؟ اپوزیشن کی اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں؟ اپوزیشن جماعتیں تو مارچ میں حکومت کے خلاف مارچ کرنے جا رہی تھیں پھر اچانک عدم اعتماد کی تحریک کہاں سے آ گئی؟ یہ بھی بڑا بنیادی سوال ہے، لہٰذا اس کا جواب بھی بڑا ضروری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر سوال یہ بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی یا کامیابی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو کس طرح سے ہینڈل کیا جائے گا؟
ان سوالوں کے جوابات جاننے سے پہلے یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں شہید بے نظیر بھٹو واحد وزیر اعظم تھیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی تھی باوجود اس کے کہ تحریک کو مقتدر قوتوں کی بڑی سپورٹ حاصل تھی۔ یہ تحریک عدم اعتماد 1989 میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر غلام مصطفیٰ جتوئی نے پیش کی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا بنیادی مقصد ان پر سیاسی دباؤ ڈالنا ہے۔ مقتدر قوتیں اپوزیشن کو بطور ہتھیار ان کے خلاف استعمال کر کے ان سے وہ کام کروانے والی ہیں جن میں وہ (عمران خان) ان کے سامنے رکاوٹ رہے۔ اب عمران خان اگر دباؤ میں آ کر کچھ ماننے پر راضی ہوئے تو شائد تحریک عدم اعتماد پھر اپوزیشن کی طرف سے ایک رسمی آئینی کارروائی ثابت ہو گی اور اس میں وہ دم خم باقی نہیں ہو گا۔ اب یہ فیصلہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ آئینی مقابلہ کر کے خود کو طاقتور ثابت کرتے ہیں یا تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے مقتدر حلقوں کے آگے سرینڈر کرتے ہیں، یہ آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔
اس تحریک کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے کیوں کہ یہ جس موقع پر پیش ہو رہی ہے اس کے بعد خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہونا ہے جس سے بہت کچھ واضح ہو سکتا ہے، شائد یہ بھی واضح ہو جائے کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا اور تحریک پیش ہونے کے بعد وہ ہمیں شیشے کی طرح صاف دکھائی دے گا۔ اس تحریک کی کامیابی کی اگر بات کی جائے تو جواب پھر وہی ہو گا کہ اس کا زیادہ تر انحصار عمران خان کی مقتدر قوتوں کے حوالے سے اپنائی گئی حکمت عملی پر منحصر ہے۔ اگر ان کی حکمت عملی سخت رہی تو تحریک کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے اور اگر وہ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئے تب شائد عدم اعتماد کی اس تحریک کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوں گے۔
تحریک کی ناکامی اور کامیابی میں اتحادیوں کا کردار بھی بڑا اہم ہے، اس وقت کم و بیش تمام اتحادی حکومت سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور اپوزیشن ان کو منانے کیلئے اپنا ہوم ورک کر رہی ہے، شہباز شریف کا چوہدری ہاؤس جانا اس کی ایک کڑی ہے، مگر اتحادی آخر میں کریں گے وہی جس کا ان کو اوپر سے آرڈر ملا کیوں کہ ق لیگ نے تو اس بابت صاف اور شفاف الفاظ میں کہا ہے کہ "ہم حکومت کے نہیں ریاست کے اتحادی ہیں” اب یہاں ریاست کون ہے وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ اپوزیشن کے مارچ میں ہونے والے مارچ اور جلسے جلوسوں کی بجائے اچانک تحریک عدم اعتماد کا شوشہ کہاں سے آ گیا؟ اگر اپوزیشن واقعی خود سے تحریک عدم اعتماد لاتی تو یہ اس وقت کیوں نہیں لائے جب پیپلز پارٹی نے ان کو مشورہ دیا تھا، لہٰذا اب عین اس وقت ہی کیوں؟ یہ سوال تمام شکوک و شبہات کو دور کرنے کیلئے کافی ہے۔ اپوزیشن کے مزاج میں اچانک آنے والی تبدیلی سے آپ اندازہ کیجئے کہ معاملات اندر سے خراب ہو گئے ہیں، کھچڑی پک چکی ہے بس کھانے کی دیر ہے۔ ان تمام سوالات سے بڑھ کر جو سوال سب سے اہم اور ناگزیر ہے وہ یہ کہ تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہو گئی اور عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے تو پھر اس کے بعد اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ کیا اپوزیشن اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کیلئے یک زبان ہو گی؟ ہم ایک سمے کیلئے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن یک زبان بھی ہوئی، اس کا بندہ وزیر اعظم بھی بن گیا، لیکن اس کے بعد جو سوال اٹھے گا وہ یہ ہو گا کہ ملک اس وقت جن گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے، کیا موجودہ اپوزیشن کے نئے وزیر اعظم ان انگنت مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا کہ نہیں؟ کیا اپوزیشن کا نیا وزیر اعظم پیٹرول کم کرے گا؟ کیا نیا وزیر اعظم مہنگائی کم کرے گا؟ کیا نیا وزیر اعظم آئی ایم ایف کے در پر جانے سے انکار کرے گا؟ اگر انکار کرے گا بھی تو کیونکر کرے گا؟ اپوزیشن کا نیا وزیر اعظم مزید قرض لینے سے کیسے مفر حاصل کرے گا؟ درستگی کیلئے نئے وزیر اعظم کا کیا منصوبہ ہو گا؟ اس طرح کی کوئی جامع منصوبہ بندی کیا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس ہے؟ اگر ہے تو اس نے اب تک آشکار کیوں نہیں کی؟ یاد رکھیں! اس تمام تر صورت حال میں اگر حکومت تبدیل بھی ہو گئی تو عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں گے، ان میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، کیوں کہ یہ سیاست نہیں بلکہ چند طاقتور لوگوں کی ذاتی لڑائی ہو گی اور سیاست دانوں کی ذاتی لڑائی میں ان کے حالات ضرور تبدیل ہوں گے عوام کے نہیں، عوام بس صرف یہ دیکھیں کہ طاقتوروں کی اس جنگ میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے۔