سیاستکالم

سیاست یا منافقت۔۔۔۔ اور یوم یکجہتی کشمیر

ماخام خٹک

ایک وقت تها کہ سیاست کو عبادت کا درجہ دیا جاتا تھاـ سیاست نظریے کا دوسرا نام ہوا کرتا تھاـ سیاست عقیدے کی طرح پختہ بندھن کا وہ تعلق تھا کہ جو ایک بار جڑتا پھر کبھی نہ ٹوٹتاـ سیاست میں کارکن سے لے کر لیڈر اور لیڈر سے لے کر کارکن تک ایک دوسرے کے ساتھ نظریے کی وساطت سے جڑے رہتےـ خوشی، غمی، رشتے، ناتے اور دکھ سکھ میں ان کی ساجھے داری ہی اس نظریے کی مرہون منت رہتی۔ اس نظریے کی وجہ سے ان کی پارٹی میں کوئی چھوٹا ہوتا تھا اور نہ بڑاـ کلاس ڈسٹنکشن یا طبقاتی اونچ نیچ کا تصور ہی یہ نظریہ مٹانے کے لئے کافی تھاـ

نظریہ قومیت سے بھی بڑھ کر تھاـ نظریہ مذہب سے بھی بالا تر ہوا کرتا تھاـ کاز نظریہ تھا اور نظریہ کاز تھاـ رنگ نسل، زبان اور صنفی امتیاز اس نظریے کے پردے کے پیچھے ایک پردہ نشین دوشیزہ کی مانند چھپا ہوا ہوتا تھاـ کوئی کارکن کوئی لیڈر اپنے پارٹی نظریے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہوا کرتے تھےـ پارٹی چھوڑنا تو درکنار پارٹی کے نظریے، منشور اور موقف کے خلاف بولنا کسی کے مزاج کا حصہ بھی نہیں ہوا کرتا تھاـ

پارٹی نظریہ ہر لیڈر اور ہر کارکن کا اوڑنا بچھونا تھاـ پارٹی پر سودے بازی یا پارٹی کے خلاف سازش نظریے کے خلاف سازش اور سودے بازی سمجھی جاتی تھی۔ نظریہ پارٹی اور پارٹی نظریہ ہوا کرتا تھا۔ پارٹی اور نظریہ ایک دوسرے کے لئے لازم اور ملزوم تھے۔ پارٹی میں سنیارٹی تجربے اور خدمات پر نیچے سے اوہر کی طرف بڑھتی تھی۔ وراثتی اور پیراشوٹر حضرات کا پارٹی میں دخول عنقا تھا۔ جونئیر اپنے لحاظ سے جونئیر ہوا کرتا تھا اور سینئر اپنے مرتبے اور شان کی وجہ سے سینئر ہوا کرتے تھے۔ جونئیر کی شان سینئر کی وجہ سے ہوا کرتی تھی اور سینئر کی عظمت جونئیرز کے سبب تھی۔ نہ کوئی ہیر پھیر اور نہ کوئی ہیرا پھیری، سیدھی بات اور سیدھی چال۔

پارٹی اور نظریے کے نام کوئی مالی منفعت حاصل کرنا پاپ سمجھا جاتا تھا۔ سیاسی ادرش یا سیاسی قول و فعل لکھے ہوئے منشور کی مانند سمجھے جاتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی اور بدلاؤ ایک ایسی جانب بڑھنے لگا اور پارٹی میں کچھ ایسے عناصر آئے یا لائے گئے یا پھر راتوں رات نئی نئی پارٹیاں معرض وجود میں لائی گئیں، نت نئے لیڈر پیدا یا بنائے گئے اور ان کی وساطت سے جذباتی بیانات لاؤڈ سپیکر ‘لاؤ سٹیج سجاؤ کے وہ کرتب نما ڈرامائی اداکارانہ تقریریں نہ صرف کرائی گئیں بلکہ عوام الناس میں بطور نظیر پھیلائی بھی گئیں۔ توڑ پھوڑ، گٹھ جوڑ، مارا ماری اور سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل، شہر بدر اور جلاوطن کرانا ایک ریت کی مانند پھیلتا گیا۔ شخصیات کو اداروں پر فوقیت دی گئی اور اداروں کو شخصیات کے تابع لانے کے وہ طفلانہ کھیل کھیلے گئے کہ ادارے نام کے ادارے تو رہے پر شخصیات کے زیر اثر، شخصیات کی قدکاٹھ اداروں کی مانند اور ادارے شخصیات کی طرح سکڑ کر رہ گئے بلکہ بعض ادارے شخصیات کی مانند پہچانے جانے لگے۔ سیاست کے اطوار بالکل بدل گئےـ بولنے کی آزادی کے نام اور دیگر بنیادی حقوق کے سہارے گالم گلوچ، دھکم پیل، دھینگا مشتی، جلاؤ گھیراؤ، ادارہ جاتی اور محکمہ جاتی بدمعاشیاں، تالا بندیاں، بیروزگاری اور نفلی روزوں کی مانند بھوک ہڑتالی کیفیات اور جذبات کو ہوا دینے جیسے عمل در عمل دہرائے گئےـ

سیاست میں پیسے اور کرپشن نے ایسی سرایت کی کہ بہت سے ٹھیکیدار اور چھوٹے لوگ کاروبار کے بل بوتے پر بزنس میں کہلائے اور اسمبلیوں میں آئے اور جب موقع ملا بے پیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے۔ نظریہ، دانش مرتبہ، تجربہ، خاندانی پس منظر، مہارت، طہارت اور اعلی ظرفی کو بالائے طاق رکھا گیا اور ہر اس نودولتیے اور جمع پونجی والوں نے اپنے کاروبار بڑھانے، موجودہ پیسے بچانے اور مزید بنانے کے لئے سیاست جیسے منافع بخش کاروبار کو اپنا مستقبل اور اوڑھنا بچھونا بنایا اور یہ کاروبار پھر ماما، چاچے، بیٹا، بیٹی اور بھانجے بھتیجے کے مابین بھنس کے رہ گیا۔ ہاں اگر کوئی سرپھرا یا بدمعاش ہے تو ان کی بات الگ ہے۔ ہم نے بہت سارے بدمعاشوں کو بھی سیاست کے اتار چڑھاؤ میں شامل حال دیکھا لیکن بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے پھر پابند سلاسل اور لمبی قید اور سزا بھی کاٹتے ہوئے دیکھا۔

سیاست امور حکومت اور ریاست کے انتظام انصرام کے مقدس فرائض کے بحسن و خوبی چلانے کا نام ہے اور ریاست اپنے بسنے والوں کی مائی باپ ہوتی ہے۔ اگر ایسے مقدس کام اور ایسے قربت والے رشتے کے امور اور انتظام و انصرام میں کھوٹ ہو تو ایسی سیاست کو پھر سیاست نہیں منافقت کہا جائے گا کیونکہ منافقت قول و فعل کے تضاد کا نام ہے اور تضاد نفاق و دشمنی کا اور جہاں نفاق و دشمنی ہو وہاں حالات اور ماحول سازگار ہو ہی نہیں سکتے اور جہاں حالات اور ماحول سازگا نہ ہوں وہاں زندگی سازگا نہیں ہوتی اور جہاں زندگی اور زیست سازگار نہ ہو وہاں زندگی بے معنی ہوتی ہے اور جہاں زندگی بے معنی ہوتی یے وہاں زندہ لوگ نہیں وہاں مردے رہتے ہیں اور مردے وہاں رہتے یا بستے ہیں جہاں قبرستان ہو اور قبرستان وہ جگہ ہوتی ہے جہاں کوئی سیاست اور منافقت نہیں ہوتی کیونکہ وہ کاروبار کی نہیں احتساب دینے کی جگہ ہے اور ادھر احتساب نیب کے زیر اثر نہیں وہاں نیب کا بھی احتساب ہوتا ہےـ

لیکن کبھی کبھار اقوام عالم کے جغادری سیاست مدار بھی منافقانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں چائنہ کے سرمئی اولمپکس سے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا سفارتی بائیکاٹ اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے چائنہ کا روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سمیت پوری دنیا سے تیس سربراہان حکومت اور مملکت کو مدعو کرناـ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا سفارتی بائیکاٹ احتجاجاً سنکیانک میں ایغور مسلمانوں پر چین کے تشدد اور ہانگ کانگ میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے پر ہےـ لیکن یہ ممالک ادھر کشمیر پر خاموش ہوتے ہیں اور ایک منافقانہ سیاسی روش کو اپناتے ہیں جہاں دنیا کی نام نہاد جانی پہچانی جمہوریہ نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے، کل پانچ فروری بروز ہفتہ ہورے ملک میں یکجہتی کشمیر بھی اسی سلسلے میں منایا جا رہا ہےـ

اقبال شاہ ایڈووکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شعر و ادب سے بھی علاقہ ہے اور ماخام خٹک کے قلمی نام سے شاعری کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button