قدرتی نظاروں سے مالا مال، وادی تیرہ سیاحوں سے خالی کیوں؟

خیبر پختونخوا کے دلکش پہاڑوں میں چھپی ہوئی وادی تیرہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ جہاں آفریدی قبائل، جن میں برقامبرخیل، کُکی خیل، مالک دین خیل، شلوبر، آدم خیل، زخاخیل اور اکاخیل شامل ہیں، صدیوں سے آباد ہیں۔ مگر یہ علاقہ آج بھی پاکستان کے سب سے پسماندہ اور نظر انداز علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی، اور ترقیاتی سہولیات کی کمی یہاں کے مستقل مسائل ہیں۔
اس کے باوجود، تیرہ وادی اپنی قدرتی خوبصورتی، دلکش مناظر، اور سیاحتی مقامات کی وجہ سے ایک خواب ناک علاقہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن دہائیوں سے جاری بدامنی اور حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے یہاں سیاح آنا بند ہو گئے ہیں۔ اگر حکومت سنجیدگی سے توجہ دے، سرمایہ کاری کرے، انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے، سیکیورٹی مضبوط ہو، اور ایک واضح حکمت عملی اپنائی جائے تو یہ وادی نہ صرف ہزاروں، بلکہ کروڑوں روپے کی سیاحتی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ساتھ ہی سوات، کلام، کمراٹ اور چترال جیسے مقامات پر سیاحوں کا دباؤ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
قدرتی حسن اور جغرافیہ
تیرہ وادی خیبر پختونخوا کے وسط مغرب میں واقع ایک بلند و بالا پہاڑی علاقہ ہے، جو افغانستان کی سرحد کے قریب خنکی وادی اور کھائی پاس کے درمیان واقع ہے۔ یہ کوہاٹ کے شمال مغرب میں تقریباً 600 سے 700 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔
یہاں کی ندیاں؛ ماستورہ، خرماب، اور خنکی، علاقے کو سرسبز و شاداب رکھتی ہیں، جبکہ بلند پہاڑ، جیسے جبل مٹا (ارتفاع 3,801 میٹر)، اس وادی کو دلکش بناتے ہیں۔ یہاں کے کئی علاقے 1500 سے 2100 میٹر کی بلندی پر واقع ہیں، جو قدرتی طور پر سیاحت کے لیے موزوں ہیں۔
برطانوی دور حکومت میں بھی یہ علاقہ مرکزی نظر میں رہا۔ خاص طور پر 1898-1897 کے جہاد میں آفریدی قبائل نے خنکی پوسٹیں قبضے میں لے کر پشاور کی طرف پیش قدمی کی، جس کے بعد برطانوی فوج نے 40,000 فوجیوں کے ساتھ حملہ کر کے علاقے کو واپس لیا۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے قبائلی عوام کو آزادی کی جنگ میں اہم کردار ادا کرنے پر سراہا۔ ان کے مطابق قبائل پاکستان کی فرنٹ لائن فورس تھے۔
مگر بدقسمتی سے بعد کے عشروں میں یہ علاقہ دہشت گردی کا گڑھ بن گیا۔ افغانستان کی سرحدی قربت اور جغرافیائی دوری نے اسے جهادِ افغان اور بعد ازاں ٹی ٹی پی و لشکرِ اسلام جیسی تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا دیا۔
تیرہ وادی میں کئی مقامات سیاحتی لحاظ سے بے مثال ہیں۔ سرحدی آرہنگا ٹاپ، کلاوچ دامان، بھوتان سر، تھن درہ، تخت کئی ہائٹس، راجگال، پاکدارہ، تھر ڈھارا، میرابان، میدان، سران سر، خواجاخیل درہ، اور باغ جیسے درجنوں علاقے کیمپنگ، ہائیکنگ اور قدرتی مناظر کے دلدادہ افراد کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔
یہ مقامات پشاور سے دو سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہیں، مگر بدامنی، سیکیورٹی چیک پوسٹس اور بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے یہاں سیاحت پنپ نہیں سکی۔
دو عشروں کی شورش کے بعد پاک فوج نے متعدد آپریشنز کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کو پسپا کیا۔ 2015-2014 میں یہاں جزوی امن قائم ہوا اور مقامی لوگ دوبارہ اپنے گھروں کو لوٹے۔ اس کے بعد مردان، پشاور، اور دیگر شہروں سے چند سیاح یہاں آئے بھی، مگر امن دیرپا نہ رہا۔
قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی ترقیاتی منصوبے نہیں آئے بلکہ سیکیورٹی کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔
مقامی افراد کے مطابق یہاں سڑکیں خستہ حال ہیں، موبائل سروس محدود ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ندارد، ہوٹل اور صحت کے مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں، اور سب سے اہم مسئلہ بدامنی کا ہے۔
جنوری 2025 میں دو مقامی تاجر حاجی شیر اور ابرار آفریدی کو اغوا کیا گیا تھا، جن کی لاشیں چھ دن بعد ملیں، جس نے پورے علاقے میں خوف کی لہر دوڑا دی۔
علاوہ ازیں، سیکیورٹی چیک پوسٹوں کی کثرت نے بھی مقامیوں اور سیاحوں کی نقل و حرکت مشکل بنا دی ہے۔ عیدالاضحیٰ 2025 کے دوران جمرد سے تعلق رکھنے والے ککی خیل نوجوانوں کو اپنے ہی علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
ان سب کے علاوہ ثقافتی پابندیاں بھی ایک رکاوٹ ہیں، جیسے موسیقی یا تفریحی سرگرمیوں کو معیوب سمجھا جانا، جو کہ آج کے دور میں اس علاقے کی سیاحت اور ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
تیرہ وادی کو ترقی دینے کے لیے کئی قابلِ عمل اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ سوات ایکسپریس وے کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں صرف عید کے دنوں میں 1.5 ملین سیاح آئے اور 66 ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔ سوات کی معیشت کا 38 فیصد اب سیاحت پر انحصار کرتا ہے۔
اسی طرز پر ورلڈ بینک اور صوبائی حکومت نے مدکلاشت، منکیال جیسے علاقوں میں انٹیگریٹڈ ٹورزم زونز (آئی ٹی زیڈ) بنائے، جہاں 2.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور دو لاکھ ملازمتیں متوقع ہیں۔
تیرہ وادی بھی اگر آئی ٹی زیڈ کا حصہ بنے تو یہ پشاور کے قریب ہونے کے باعث سب سے زیادہ فائدہ دے سکتا ہے۔
مقامی مبصر ظفر آفریدی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس علاقے پر توجہ دے اور سیکیورٹی بہتر کرے تو تیرہ وادی میں روزگار کے لیے نوجوانوں کو بہت وسیع مواقع مل سکتے ہیں۔
مقامی باشندے ہزاروں نہ ہوں، لاکھوں روپے کے بزنس میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ اگر تیرہ وادی کو آئی ٹی زیڈ منصوبے کا حصہ بنایا جائے تو یہ پشاور سے چند گھنٹوں کی مسافت پر ایک سیاحتی مرکز کے طور پر اُبھرے گا اور دوسرے علاقے پر سیاحتی دباؤ بھی کم ہوگا۔ اس سے مقامی افراد کے معیار زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔
ان کے مطابق وادی تیرہ کو ایک سیاحتی مرکز بنانے سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ پشاور اور خیبر کے علاقوں میں امن اور خوشحالی بھی آئے گی۔
اسی سلسے میں اگر ان چند سفارشات پر عمل کر لیا جائے تو یہ علاقہ ترقی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے:
-
امن و امان کا قیام: ترقی کی بنیاد امن ہے، لہٰذا سب سے پہلے سیکیورٹی بہتر بنائی جائے۔
-
بنیادی سہولیات: سڑکیں، انٹرنیٹ، ہوٹل، صحت کے مراکز اور انفراسٹرکچر کو ترقی دی جائے۔
-
ثقافت کا فروغ: مقامی تہوار، ثقافتی دن، اور میڈیا میں مثبت کوریج سے وادی کی شناخت بہتر کی جائے۔
-
مقامی کمیونٹی کی شمولیت: مقامی لوگوں کو ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا جائے تاکہ وہ خود کو مالک سمجھیں اور فائدہ اٹھائیں۔
-
عوامی و نجی شراکت داری: سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ بھی ترقی میں کردار ادا کرے۔
تیرہ وادی ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جو قدرتی حسن، تاریخی اہمیت، اور سیاحتی مواقع سے مالا مال ہے۔ مگر بدامنی، انفراسٹرکچر کی کمی، اور حکومتی غفلت نے اس علاقے کو ترقی سے دور رکھا ہے۔
اگر حکومت، نجی شعبہ، اور مقامی کمیونٹی مل کر امن، ترقی، اور سیاحت کے لیے اقدامات کریں تو یہ وادی جلد ہی سوات اور کلام کی طرح سیاحوں کی جنت بن سکتی ہے۔
جیسا کہ ایک مقامی قانون ساز نے کہا کہ”امن انسانی ترقی کی پہلی شرط ہے۔ ہمارا نعرہ ہونا چاہیے: تیرہ وادی، انٹیگریٹڈ ٹورزم زون!”