قبائلی اضلاع میں مرد صحافت نہیں کر سکتے، تو خواتین کیسے کام کریں گی

مصباح الدین اتمانی
باجوڑ سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون صحافی مریم کا کہنا ہے کہ "باجوڑ میں خواتین کے بے تحاشہ مسائل ہیں جس میں بے روزگاری، تعلیم اور صحت سرفہرست ہے ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ قلم کے ذریعے ان کو اجاگر کروں۔” مریم (فرضی نام) علاقائی اقدار و روایات کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی۔ وہ اس وقت پشاور میں رہائش پذیر ہے تاہم ان کی سٹوریز کا فوکس باجوڑ ہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قبائلی خواتین کی مشکلات اور مسائل کے حوالے سے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے اس لیے میں نے ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے قلم کا سہارا لیا۔ مریم باجوڑ کی واحد خاتون صحافی ہیں جو زیادہ تر خواتین کی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی مسائل کے حوالے سے لکھتی ہیں۔
"میں نے 2021 میں خواتین پر لکھنا شروع کیا ، پہلے بلاگز اور پھر تحقیقاتی رپورٹنگ شروع کی، اب میں ڈیجیٹل سٹوریز اور ڈکومینٹری پر بھی کام کر رہی ہوں لیکن بھائیوں کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے” مریم نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ میرے والدین میری حوصلہ افزائی کرتے ہے لیکن خاندان کے باقی لوگ میری صحافت کے خلاف ہے جس کی بنیادی وجہ رسم و رواج اور صدیوں سے چلا آنے والا قبائلی نظام ہے، وہ کہتی ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ میڈیا پر آنے سے خاندان کی ساکھ متاثر ہوگی۔
مریم کہتی ہے کہ میں ڈیجیٹل سٹوریز بھی کرنا چاہتی ہوں لیکن علاقائی روایات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں گھر سے نکل کر فیلڈ میں کام کروں، اگر باجوڑ میں پریس کلب گئی تو مجھ پر تنقید ہوگی میرے خاندان پر تنقید ہوگی اور میری مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
مریم کے مطابق باجوڑ میں خواتین کا صحافت میں نہ آنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوئی ہے، وہاں کی نصف سے زیادہ آبادی نہ تو لکھ سکتی ہے، نہ ریڈیو پر آسکتی ہے، نہ ٹی وی پر آسکتی ہے اور نہ ہی اپنے مسائل پر بات کر سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئی بتایا کہ جب میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے لکھتی ہو تو میرا دل مطمئن ہو جاتا ہے کہ میں نے اپنے اپنا حق ادا کیا۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق باجوڑ کی آبادی دس لاکھ ترانوے ہزار چھ سو چوراسی افراد پر مشتمل ہے، جس میں خواتین کی تعداد نصف یعنی پانچ لاکھ چھتیس ہزار پانچ سو بیس ہے۔ باجوڑ پریس کلب کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد پینتالیس ہے جبکہ ضلع میں کام کرنے والے صحافیوں کی مجموعی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے ۔
جمائمہ آفریدی کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
جمائمہ آفریدی کا تعلق قبائلی ضلع خیبر سے ہے وہ بھی پچھلے چار سالوں سے انتہائی کٹھن حالات میں صحافت کر رہی ہے، وہ خواتین کے مسائل، انسانی حقوق اور افغان مہاجرین کو درپیش مسائل پر لکھتی آرہی ہیں۔
جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو آگے آنے نہیں دیا جاتا۔ "میں نے خطرات کو پس پشت ڈال کر باہر نکل کر صحافت کرنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے میری مخالفت اور حوصلہ شکنی کی۔ اگرچہ جمائمہ اپنا نام کھل کر استعمال کرتی ہے اور گراونڈ پر جاکر رپورٹنگ کرتی ہے تاہم اس کے باوجود وہ مسائل کا شکار ہیں۔”
جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کے لیے موزوں پلیٹ فارم کا نہ ہونا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک سال بلامعاوضہ کام کرتی رہی، اس دوران میری حوصلہ شکنی کی گئی لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی، اب میں انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ کام کر رہی ہوں جس کا مجھے معاوضہ بھی ملتا ہے۔
باجوڑ کی مریم اور خیبر کی جمائمہ آفریدی، دونوں خواتین مختلف قبائلی اضلاع سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں، جن میں سب سے بڑی رکاوٹ مقامی روایات اور سماجی دباؤ ہے تاہم انکی آواز کی گونج دور دور تک پھیل چکی ہے۔جمائمہ آفریدی نے حال ہی میں عالمی ایوارڈ "لورینزو نتالی پرائز” اپنے نام کیا۔
ضلع خیبر پریس کلب کے جنرل سیکرٹری کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق لنڈی کوتل پریس کلب میں رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد 31 ہیں جن میں ایک بھی خاتوں صحافی شامل نہیں ہے۔ ۔جمائمہ کا کہنا ہے کہ نے جولائی 2023 میں لنڈی کوتل پریس کلب کی ممبرشپ کے لیے درخواست دی تھی تاہم تاحال انہیں ممبرشپ نہیں ملی ہے۔
جمائمہ آفریدی کی ممبرشپ کے حوالے سے جب ہم نے لنڈی کوتل پریس کلب کے جنرل سیکرٹری مہراب شاہ آفریدی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ جمائمہ کو درخواست دینے کے فوری بعد ایسوسی ایٹ ممبرشپ دیدی گئی ہے تاہم اس کے بعد وہ نہ تو پریس کلب آئی ہیں اور نہ ہی پریس کلب کے کسی عہدیدار سے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ مہراب آفریدی کے مطابق جمائمہ آفریدی نے ممبرشپ کے لیے مطلوبہ ضروری کاغذات بھی اب تک جمع نہیں کروائی ہے ۔
تاہم جمائمہ آفریدی اس کو محض ایک بہانہ قرار دے کر کہتی ہے کہ میں نے تمام ضروری اور مطلوبہ کاغذات کمیٹی ممبران کے حوالے کیے ہیں اور درخوست دینے کے بعد کئی بار ان سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن وہ جواب دیتے کہ صبر کریں۔
قبائلی اضلاع میں خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل اور کم ممبرشپ کے حوالے سے باجوڑ پریس کلب کے صدر حسبان اللہ کا کہنا ہے کہ سال 2019 میں تین خواتین کو باجوڑ پریس کلب کی ممبرشپ دی تھی، وہ مقامی میڈیا کے ساتھ کام کرتی تھی لیکن بعد میں گھریلو مسائل کی وجہ سے انہوں نے اپنی سٹوریز پبلش نہیں ہونے دی۔ ایک سال بعد ان کی درخواست پر انکی پریس کلب ممبرشپ واپس ختم کی گئی۔ ان کے مطابق اب باجوڑ پریس کلب کے رجسٹرڈ ممبرز کی تعداد 45 ہے، جن میں کوئی خاتون ممبر شامل نہیں ہے۔
حسبان اللہ کے مطابق باجوڑ میں سکیورٹی اور رسم ورواج کے ساتھ ساتھ سہولیات کا نہ ہونا خواتین صحافیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پریس فریڈم نیٹ ورک کے صوبائی عہدیدار گوہر علی بھی قبائلی اضلاع میں خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ وہاں کے روایات قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں جو صوبہ کے دیگر اضلاع میں میسر ہے۔ قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کی شادیاں کم عمر میں ہو جاتی ہے اور وہ گھروں تک محدود رہ جاتی ہے جبکہ صحافت کے لیے گھروں سے باہر نکلنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے ضم اضلاع میں خواتین صحافیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
خواتین صحافیوں کا نہ ہونا کتنا نقصان دہ ہے؟
بلال یاسر باجوڑ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خواتین کا صحافت میں نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف خواتین مسائل سے دوچار ہے بلکہ یہاں مرد صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں مشکلات ہیں، انہوں نے بتایا کہ قبائلی معاشرے میں مرد صحافی کے لیے خواتین سے بات کرنا مشکل ہوتا ہے، اس وجہ سے یہاں غیرت کے نام پر قتل، وراثت کے کیسز اور خواتین کی صحت کے مسائل پر کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلال یاسر کے مطابق باجوڑ کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، خواتین کی مسائل خواتین صحافی ہی بہتر سمجھ سکتی ہیں اور ان پر لکھ سکتی ہیں۔ خواتین کے لیے صحافت کی میدان میں آنا ضروری ہے، حکومت اور عوام کو بھی چاہیئے کہ انہیں وہ ماحول فراہم کر دیں۔
قبائلی اضلاع میں خواتین صحافیوں کے لیے کام کرنا آسان نہیں
بلال یاسر کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں مرد صحافیوں کے مقابلے میں خواتین صحافیوں کو زیادہ سکیورٹی کے مسائل کا سامنا ہے، ایک طرف رسم و رواج ہے تو دوسری دوسری طرف سیکیورٹی مسائل ہے۔ ضم اضلاع میں ایک خوف کا سماں ہے، یہاں کچھ خواتین صحافی موجود ہیں لیکن وہ مجبوران بندوبستی علاقوں کو منتقل ہوئی ہیں اور وہاں سے کام کرتی ہے۔ بلال یاسر نے بتایا کہ انہوں نے پریس کلب کی ممبر شپ خواتین صحافیوں کے لیے کھول رکھی ہے۔ ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں،
مقامی روایات خواتین صحافیوں کی راہ میں حائل رکاوٹ
قبائلی صحافی شمس مومند بھی قبائلی اضلاع میں خواتین صحافیوں کی کم تعداد کی وجہ مقامی روایات سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے تو خواتین کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے لیکن جن گھرانوں میں انہیں باہر کام کرنے کی اجازت ہے تو وہ یا تو ٹیچنگ کریں گی یا پھر محکمہ صحت میں کام کریں گی۔ شمس مہمند کے مطابق یہاں کے صدیوں پرانے رسم و رواج کے مطابق مقامی مشران خواتیں کا صحافت، عدالت یا کسی اور دفتر میں کام کرنے کو قبول نہیں کرتے۔
شمس مہمند نے بتایا کہ ضم اضلاع میں خواتین صحافیوں کی بہت ضرورت ہے کیونکہ یہاں خواتین پر تشدد، کم عمر میں شادی اور وراثت جیسے مسائل مرد صحافی بہتر طریقے سے رپورٹ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے مرد صحافی مسئلے کے تہہ تک نہیں جا سکتے۔ شمس مہمند نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس معاشرے میں تبدیلی آئی گی، تعلیم اور شعور بڑھے گا تو لوگ ان چیزوں کو خود بخود قبول کرنا شروع کر دیں گے۔
اگرچہ حکومتی سطح پر قبائلی اضلاع کی خواتین صحافیوں کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہوئے تاہم جمائمہ آفریدی اور مریم سمجھتی ہیں کہ پریس کلبز کے ذریعے ان خواتین کی حوصلہ افزائی ضرور کی جاسکتی ہے، مرد صحافیوں کی طرح انکو بھی ممبرشپ دینے کے ساتھ باقی مراعات بھی دی جاسکتی ہے۔ باقی این جی اوز یا میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے بھی ان خواتین کو تربیت فراہم کرسکتے ہیں جس سے انکی استعداد کار میں اضافہ ہوسکتا ہے اور وہ غیر ملکی اداروں سے بھی منسلک ہوسکتی ہیں۔