طورخم بارڈر پر کوئلہ اور سوپ اسٹون سے بھرے سینکڑوں ٹرک دو ہفتوں سے کلیئرنس کے منتظر

محراب شاہ آفریدی
پاک افغان سرحد طورخم پر افغانستان سے درآمد شدہ کوئلہ اور سوپ اسٹون سے لدے سینکڑوں ٹرک گزشتہ دو ہفتوں سے کلیئرنس کے بغیر کھڑے ہیں، جس سے تاجر، ٹرانسپورٹرز اور امپورٹرز شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ کلیئرنس کی معطلی کسٹم حکام کی جانب سے ’سرٹیفیکیٹ آف کنٹری آف اوریجن‘ فراہم کیے بغیر کلیئرنس دینے سے انکار کے باعث ہوئی ہے۔
طورخم کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے صدر مجیب شینواری نے بتایا کہ اچانک کلیئرنس بند کی گئی اور دو ہفتے قبل آگاہ کیا گیا کہ اب کوئلہ اور سوپ اسٹون کی کسٹمز کلیئرنس صرف پیدائشی ملک کا سرٹیفیکیٹ فراہم کرنے پر ہوگی۔ ان کے مطابق یہ شرط درآمد کنندگان اور ٹرانسپورٹرز کے لیے عیدالاضحٰی سے قبل شدید بے چینی کا باعث بنی ہے کیونکہ بیشتر تاجر کلیئرنس مکمل کر کے عید کی چھٹی پر جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
ادھر چیف کلکٹر کسٹمز پشاور خواجہ خرم نعیم نے میڈیا سے گفتگو میں مؤقف اپنایا کہ افغانستان سے امپورٹ پر سرٹیفیکیٹ آف اوریجن پیش کرنا قانونی تقاضا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خرلاچی اور غلام خان بارڈر پر یہ سرٹیفیکیٹ پیش کیا جاتا ہے اور طورخم پر بھی پہلے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ چھ ماہ سے تمام امپورٹرز کو اس تقاضے سے آگاہ کیا گیا تھا اور یہ کوئی اچانک فیصلہ نہیں۔
خرم نعیم نے کہا کہ ایجنٹس پہلے یہ دستاویزات پیش کرتے رہے لیکن اب عید سے پہلے سینکڑوں گاڑیاں لا کر بارڈر پر کھڑی کر دی گئیں تاکہ دباؤ ڈالا جا سکے۔ ان کے مطابق جن گاڑیوں کی دستاویزات مکمل ہیں، ان کی کلیئرنس جاری ہے۔ یا تو امپورٹرز سرٹیفیکیٹ آف اوریجن پیش کریں یا ای آئی ایف (الیکٹرانک امپورٹ فارم) جمع کرائیں، کیونکہ یہ ایک قانونی تقاضا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طورخم پر امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو کئی سہولیات دی جارہی ہیں۔
دوسری جانب مجیب شینواری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں اعلیٰ حکام سے پہلے سے موجود سامان کی ایک بارہ کلیئرنس کی اجازت کے لیے بات کی گئی تاکہ عید سے قبل کچھ ریلیف دیا جا سکے لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسٹمز حکام کو شبہ ہے کہ افغانستان سے درآمد کے نام پر کسی اور ملک سے سامان آرہا ہے، اسی لیے سرٹیفیکیٹ آف اوریجن پر اصرار کیا جا رہا ہے۔
شینواری کے مطابق ماضی میں افغان حکام سے درکار دستاویزات کے حصول پر بات چیت ہوئی تھی، تاہم قیمت، وزن اور درآمد سے متعلق تکنیکی مسائل درپیش رہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ اور سوپ اسٹون کی درآمد باقاعدہ قانونی عمل کے تحت افغانستان کے مختلف علاقوں سے کی جاتی ہے اور اس کے شواہد وقتاً فوقتاً کسٹمز حکام کو دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے پشاور، اسلام آباد اور کابل میں تمام متعلقہ اداروں کو درخواستیں ارسال کی جا چکی ہیں۔
کوئلہ درآمد کرنے والے تاجروں کے مطابق پابندی سے قبل روزانہ 300 سے 350 کوئلے سے بھرے اور 100 سے 150 سوپ اسٹون سے بھرے ٹرک طورخم، غلام خان اور خرلاچی کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ درآمد کیا گیا کوئلہ پنجاب کے مختلف صنعتی شہروں میں بھیجا جاتا ہے جہاں یہ مختلف مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے جبکہ سوپ اسٹون کراچی منتقل ہوتا ہے جہاں سے اسے دیگر ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔
تاجر برادری نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انکو ریلیف دے کر کلیئرنس کا عمل بحال کیا جائے تاکہ ٹرک ڈرائیورز، مزدوروں اور امپورٹرز کو درپیش مشکلات میں کمی آ سکے۔