باجوڑ ایجنسی کے انضمام کے بعد بیٹیوں کے وراثت میں حق کا پہلا کامیاب کیس
زاہد جان
عبداللہ جان، ایک معروف صحافی، نے اپنی والدہ کے جائیداد میں حق کے لئے چھ سال تک قانونی جنگ لڑی۔ یہ کیس نہ صرف ان کی والدہ کے لئے بلکہ پورے معاشرے کے لئے ایک مثال بن گیا۔ ان کی والدہ نے اپنے والد کی جائیداد میں حصے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ثابت کیا کہ بیٹیاں بھی جائیداد میں برابر کی حقدار ہوتی ہیں۔
وکیل ثمین اللہ کی محنت اور قانونی مہارت نے اس کیس کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ باجوڑ ایجنسی کے ضم ہونے کے بعد پہلا کیس تھا، جس میں بیٹی کو جائیداد میں اس کا حق ملا۔ اس کامیابی نے نہ صرف عبداللہ جان کی والدہ کو ان کا حق دلایا بلکہ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد بھی رکھی۔
عبداللہ جان کی والدہ کی یہ کامیابی دیگر خواتین کے لئے بھی امید کی کرن ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا سکتی ہیں اور کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔
مگر یہاں پر جب اس طرح کے کیس خواتین جیت جاتی ہیں تو ان کے اوپر پھر اپنے باپ اور بھائیوں کے گھروں کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔
عبداللہ جان کا کہنا ہیں کہ میری والدہ نے پشتون روایات کے تحت جرگے کے ذریعے اپنے بھائیوں سے وراثت میں حق مانگا تھا تو بھائیوں نے انکار کرکے میری والدہ سے رشتہ ہی ختم کردیا۔
جس کے بعد میری والدہ نے عدالت میں حق وراثت کیس کر دیا۔ جس پر عدالت عالیہ نے میری والدہ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ضلع پٹوار تحصیلدار کو حکم جاری کرتے ہوئے میری والدہ کو اپنے بھائیوں سے جائیداد میں حصہ دلانے کیلئے احکامات جاری کئے۔
عبداللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہاں یہاں پر میری والدہ کو بہت مشکلات کا سامنا تھا مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ میرا حق ہے جو مجھے قرآن نے دیا ہے اور جو اپنے حق کیلئے نہیں لڑتا وہ گنہگار ہے۔
عبداللہ جان کا مزید کہنا ہے کہ یہ میری والدہ کیلئے ایک تاریخی دن تھا اور اس تاریخی دن پر میری والدہ خود عدالت میں موجود تھی۔جس نے خود ججز صاحبان کا فیصلہ سنا۔
عبداللہ جان نے بتایا کہ میری والدہ کے والد کی میراث تھی۔ جس پر ان کے دو بھائی یعنی میرے دو ماموں قابض تھے۔ یہ میرے والدہ کا شرعی اور قانونی حق تھا، جس کے لئے انہوں نے دعویٰ دائر کیا۔ دعویٰ میں 60 کنال زمین شامل تھی، جس میں سے قانونی طور پر 8 کنال زمین سائل کو ملے گی۔ دوسرے حصہ دار سائل کے سگے بھائی ہی ہیں۔