تورچھپر مسائل کا گڑھ، تعلیمی اداروں کا فقدان سرفہرست
شاہ زیب آفریدی
درہ آدم خیل سے تقریباً 20 کلومیٹر فاصلے پر واقع تورچھپر کے نام سے مشہور ایک خوبصورت علاقہ ہے، یہ علاقہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے لیکن یہاں لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، سکول کے فقدان کا مسئلہ ہے جن میں سرفہرست ہے۔
سب ڈی ویژن کوہاٹ میں شامل اس علاقے کی آبادی تقریباً 22 سو تک ہے، اس علاقے میں صرف ایک ہائی سکول ہے اور جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے پرائمری سکولوں کی ٹوٹل تعداد 15 ہے لیکن ان 15 سکولوں میں صرف پانچ بنے ہوئے ہیں، باقی دس سکول ویران پڑے ہوئے ہیں، ان سکولوں کو 10 سال ہو گئے ہیں لیکن اب تک ان کی تعمیر کیلئے بندوبست نہیں کیا گیا، علاقہ مشران نے کوششیں شروع کی ہوئی ہیں کہ اگر 10 کے 10 سکول نہیں بنائے گئے تو کم از اکم ان میں سے آدھے سکول تو بنانے چاہئیں کیونکہ ہمارے بچوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہاں 3 سکول لڑکوں کے ہیں جن میں طالبعلموں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہے جبکہ 2 سکول لڑکیاں کے ہیں، ان کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہے، ان دونوں سکولوں میں بچوں کی تعداد 1500 تک ہے، زیادہ تر لڑکیاں سکول نہیں جاتیں کیونکہ وہ پہاڑوں میں سفر نہیں کر سکتیں اور کچھ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہماری بچیاں اتنا دور جاتی ہیں ان کے ساتھ کوئی کچھ برا نہ کر ڈالے۔
تورچھپر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں لوگ گھومنے جاتے ہیں، یہاں کے لوگ بہت پسماندہ ہیں، ان لوگوں کی زیادہ تر آمدنی نہیں، بھیڑ بکریاں پال کر ان کو فروخت کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں رحمان گل آفریدی استاد کا کہنا تھا کہ میں پچھلے 10 سال سے بچوں کو پڑھا رہا ہوں، ”یہاں تورچھپر میں پرائمری سکول صرف پانچ ہیں باقی ویران پڑے ہوئے ہیں ہمارے ساتھ 300 سے زیادہ تک بچے پڑھتے ہیں لیکن زیادہ تر بچے پہاڑوں میں چل کر آتھے ہیں ان کے ساتھ بہت سے واقعات ہوئے ہیں، کوئی گر جاتا ہے کوئی زخمی ہو جاتا، اس طرح پہاڑوں میں جنگلی جانور بھی ہوتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ سکول بنائے کیونکہ یہاں کے بچے بہت کافی ذہین ہیں۔”
احمد آفریدی پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے، اس نے بتایا، ”میں صبح نکل جاتا ہوں اور پہاڑوں میں تقریباً 30 منٹ تک سفر کرتا ہوں، اس دوران میں کئی بار گر بھی گیا ہوں، جب سکول پہنچ جاتا ہوں تو بہت تھکا ہوتا ہوں اور سکول میں بھی زیادہ سبق نہیں پڑھایا جاتا، میرے ساتھ اور بھی بچے آتے ہیں، ہمارے نزدیک جو سکول تھا وہ گر گیا تھا لیکن حکومت اس کا دوبارہ تعمیر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم بہت مشکل سے آتے اور جاتے ہیں۔”