‘میں نویں جماعت میں تھی جب دہشتگردوں نے ہمارے سکول کو نشانہ بنایا’
سٹیزن جرنلسٹ مصباح الدین اتمانی
‘تعلیمی اداروں کی کمی، خراب حالات اور رسم و رواج سمیت کئی رکاوٹیں میری راہ میں حائل تھیں لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا’ یہ کہنا ہے ضلع باجوڑ کی تحصیل خار سے تعلق رکھنے والی دیا خان (فرضی نام) کا جو ملاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرائمری سکول ان سے کئی کلومیٹر دور تھا، ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہر روز پیدل سکول جاتی تھی۔ دیا خان نے بتایا کہ جب انہوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور نویں جماعت میں داخلہ لیا تو چند ہی دن بعد طالبان نے سکول کو بارودی مواد سے اڑا دیا جس کے بعد وہاں پڑھنے والے اکثر طالبات نے تعلیم کو خیر باد کہا لیکن میں نے تعلیم چھوڑنے کی بجائے اپنے پڑوس میں موجود ایک استاد سے ٹیوشن شروع کر دی اس کے بعد میں کبھی سکول نہیں گئی،گھر ہی میں امتحان کیلئے تیاری کی اور میں پاس ہو گئی۔
محکمہ تعلیم کے مطابق ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کی تعلیمی شرح 4.7 فی صد ہے. 2008 میں عسکری اپریشن کے دوران 110 سکولز تباہ ہو گئے تھے جن میں سے دس لڑکیوں کے اور ایک سو(100) لڑکوں کے سکولز شامل تھے۔ ان تباہ شدہ تعلیمی اداروں میں سے اکثر نہ صرف دوبارہ تعمیر ہو چکے ہیں بلکہ کچھ سکولز اپ گریڈ بھی ہو چکے ہیں۔
دیا خان نے بتایا کہ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا لیکن خراب حالات کی وجہ سے کالج پورا سال بند رہا، ایف ایس سی کلیئر کرنے کی بعد انکو جب ملاکنڈ یونیورسٹی میں داخلہ ملا تو انکو اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ باقی دنیا سے کس قدر پیچھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ کی بچیاں تعلیم کی خواہش مند ہیں لیکن تعلیمی اداروں اور وہاں سٹاف کی کمی کی وجہ سے ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
دیا خان نے اپنی بات اگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ضم شدہ اضلاع میں لڑکیوں کی کم شرح خواندگی کی وجہ وہاں کے رسم و رواج ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ تعلیمی اداروں کی اور سٹاف کی کمی ہے۔ سکول دور ہونے کی وجہ سے اکثر والدین اپنے بچیوں کو مجبورا سکول جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر ایک علاقے میں پرائمری سکول ہو اور وہاں مڈل سکول بھی بن جائیں تو ایک علاقے کی لڑکیوں کو دوسرے علاقے کے مڈل سکول نہیں جانا پڑے گا ان کو ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نئے تعلیمی اداروں میں تعداد کم ہوگی لیکن وقت کے ساتھ تعداد بڑھتی جائے گی اور ساتھ ہی دیگر خاندانوں پر بھی اس کا اثر ہوگا اور وہ اپنی بچیاں سکول بھیجنا شروع کر دیں گے۔
ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کیلئے 192 پرائمری، 42 مڈل، 15 ہائی سکولز ہیں جبکہ پورے ضلع میں ایک بھی ہائیر سکنڈری سکول موجود نہیں ہے۔
باجوڑ میں اب بھی لڑکیوں کے کئی سرکاری سکولز غیر فعال ہیں، ریشنلائیزیشن پالیسی کے تحت پورے ضلع میں مزید 219 پرائمری، 150 مڈل، 55 ہائی اور 16 ہائرسکنڈری سرکاری سکولز کی ضرورت ہے جس کیلئے صوبائی حکومت نے اب تک کوئی موثر اقدامات نہیں اٹھائے۔
ریشنلائیزیشن پالیسی کے تحت پرائمری سکولوں میں مزید 366 استانیوں کی ضرورت ہیں جبکہ مڈل لیول پر 36 استانیوں کی ضرورت ہیں۔ ہائی سکولوں میں 127 استانیاں پڑھا رہی ہیں اور پانچ استانیوں کی اسامیاں خالی ہیں۔
دیا خان کے مطابق پچیسویں آئینی ترمیم کی بعد ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کی شرح تعلیم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پرائمری اور مڈل لیول پر کلاس میں 10، 15 بچیاں ہوتی تھی، اب ان کی تعداد بڑھ جانے کے بعد ان کیلئے الگ الگ سیکشنز بنائے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایف ایس سی میں بھی 100 سے زیادہ طالبات کلاس میں ہوتی ہیں۔
ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کی کم تعلیمی شرح کی حوالے سے جب ہم نے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر حاجی نذیر ملاخیل سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیمی شرح بہتر بنانے کیلئے ہم ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اے ڈی پی میں لڑکیوں کیلئے نئے سکولز بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم لڑکیوں کو تعلیم کیطرف راغب کرنے کیلئے مختلف وظیفے بھی دے رہے ہیں جو لڑکوں کے مقابلے میں دگنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم لڑکیوں کو نہ صرف مفت کتابیں فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان کو سکول بیگز بھی دے رہے ہیں تاکہ وہ سکول آنا شروع کر دیں۔ سکولوں میں ٹیچرز کی حاضری یقینی بنانے کیلئے محکمہ تعلیم کام کر رہا ہے اور غیر فعال تعلیمی اداروں میں سے اکثر فعال ہوئے ہیں۔
علاقائی مشر اور سماجی کارکن مولانا خانزیب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ باجوڑ کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 لاکھ سے زیادہ ہے، یہاں غربت کی وجہ سے لڑکوں کی تعلیم مشکل ہے پھر لڑکیوں کو پڑھانے کیلئے مزید ہمت اور وسائل کی ضرورت ہے۔
دیا خان سے اتفاق کرتے ہوئے مولانا خانزیب نے کہا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری روایات لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہیں دیتی لیکن یہ بالکل غلط ہے اگر روایات دیکھی جائے تو باجوڑ میں مردوں کے ہمراہ خواتین زمینداری بھی کرتی ہیں، کام کے سلسلے میں وہ پہاڑوں پر بھی جاتی ہیں، اس کے علاوہ بہت سارے ایسے کام ہیں جسے کرنے کے لئیے یہی خواتین گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔ پھر جب تعلیم کی بات آتی ہے تو صرف وہاں سب کو روایات کیوں نظر آتے ہیں۔
روایات کا کچھ نہ کچھ رول ہوگا لیکن روایات کی وجہ سے تعلیمی شرح اتنی متاثر نہیں ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔
مولانا خانزیب نے کہا کہ ہمارا اصل مسئلہ پسماندگی، غربت، سہولیات اور حکومتی اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں کی کمی بہت بڑامسئلہ ہے، انہوں نے کہا کہ میری اپنی بیٹی کو پرائمری پاس کرنے کے بعد مڈل کلاسز کیلئے تین چار کلومیٹر دور جانا پڑتاہے۔ ‘ہم اپنی گاڑی میں اس کو صبح سکول لیکر جاتے ہیں اور چھٹی کے بعد واپس اسی گاڑی میں گھر پہنچاتے ہیں لیکن عام لوگ کیا کرینگے، ان کیلئے یہ ممکن نہیں اور نہ ہر شخص کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں۔’ مولانا خانزیب نے وضاحت کی۔
انہوں نے بتایا کہ تعلیمی شرح بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ نہ صرف تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھائی جائے بلکہ ان میں تمام ممکن سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالت لڑکیوں کی تعلیم کی حوالے سے کافی تشویشناک ہے کیونکہ 100 میں سے بمشکل ایک یا دو لڑکیاں کالج اور یونیورسٹی لیول تک پہنچ جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پورے باجوڑ میں ایک بھی خاتون مقامی ڈاکٹر موجود نہیں ہے، یہاں ہمیں خواتین میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، نہ سی ایس ایس افیسرز اور نہ ہی کوئی پروفیسرز نظر اتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ضلع باجوڑ میں پرائمری لیول پر سرکاری سکولوں میں انرول لڑکیوں کی تعداد 30 ہزار، مڈل لیول میں 6 ہزار جبکہ ہائی لیول میں 2 ہزار ہے جن کی مجموعی تعداد 38 ہزار ہے۔ جبکہ پرائمری سکول سے باہر لڑکیوں کی تعداد 63010 ہے، مڈل لیول پر 62662 اور ہائی لیول پر 34188 لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔مجموعی طور پر 159860 لڑکیاں سکولوں سے باہر ہیں۔
مولانا خانزیب نے بتایا ہماری روایات لچکدار ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں اتی رہتی ہے،
بہت والدین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی بیٹی ہائی سکول یا مڈل سکول بھیج رہا ہو، گاڑی سے بات کی ہے، لوگوں میں تبدیلی ارہی ہے اس کو مزید تیز کرنے کیلئے کام کی ضرورت ہے اور انہیں ماحول کے ساتھ ساتھ سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحصیل نواگئی کی ابادی تقریبا 60000 ہےلیکن یہاں لڑکیوں کیلئے صرف ایک سکول ہے۔ یہاں کوئی ہائیر سیکنڈری سکول یا کالج موجود نہیں ہے اور اس طرح کئی علاقے ہیں جہاں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔
مولانا خانزیب نے کہا کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کا مخالف نہیں ہم نے اسلام قبول کیا ہے لیکن اب تک اسلامی تعلیمات پرمکمل عمل نہیں کیا ہے۔ جس طرح اسلام میں مرد کیلئے تعلیم ضروری ہے اس طرح خواتین کیلئے بھی ضروری ہے اسلام تو تعلیم کی ترغیب دیتا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ حضرت محمد ﷺ کی زوجہ ہیں جبکہ ابوبکر کی بیٹی ہیں صحابہ کے دور میں بڑے علماء میں سے ایک تھی۔ صحابہ ان کی پاس آتے اور ان سے مختلف مسائل کی بارے میں پوچھتے۔
نائیلہ ٹرائبل یوتھ موومنٹ کی ایک ممبر ہے، انہوں نے کہا کہ باجوڑ سمیت تمام ضم شدہ اضلاع کی بچیوں کو تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ وہاں ابھی تک حکومت نے وہی ماحول پیدا نہیں کیا جہاں بچیاں پڑھ سکے۔
لڑکیاں پڑھنے کیلئے پانچ پانچ اور دس دس کلومیٹر دور جاتی ہیں، ان کیلئے ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہیں، اوپر سے رسم و رواج کا یہ حال ہے کہ کسی لڑکی کا مردوں کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھنا تو دور کی بات، ان کو گھر سے اکیلے نکلنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔
نائیلہ نے بتایا کہ اکثر بچیاں پرائمری پاس کرکے اگے پڑھنا چاہتی ہیں لیکن مڈل سکولز نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خواب محض خواب ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کی ابادی 70 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے لیکن ابھی تک وہاں ایک یونیورسٹی نہیں بنائی گئی، میں سمجھتی ہوں کہ حکومت جان بوجھ کر ضم شدہ اضلاع کے بچیوں کو حق تعلیم سے محروم رکھ رہی ہیں۔
ضلع باجوڑ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سرکاری ہسپتال کی بوسیدہ بلڈنگ میں کلاسز شروع کر کے اس کو کالج کا نام دیا گیا، وہاں طالبات کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کالج میں سٹاف کی کمی ہے۔ بی ایس کی اٹھ کلاسز کو پڑھانے کیلئے صرف ایک ٹیچر ہے۔ یہاں نہ تو کوئی لیبارٹری موجود ہے اور نہ ہی کوئی کھیل کا میدان موجود ہے۔
ہسپتال کے ایک حصے کو ہاسٹل کا نام دیا ہے لیکن وہاں لڑکیوں کو رہائش کی اجازت نہیں ہے، اور نہ ان کی سکیورٹی کا کوئی بندوبست ہے، تو دور دارز کی لڑکیوں کو یہاں آنا مشکل ہے، تحصیل سلارزئی، تحصیل نواگئی اور تحصیل ماموند کی بچیوں کو اس کالج سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
نائیلہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سابقہ فاٹا کی تمام اضلاع میں یونیورسٹی کے برانچز کھول دیں، وہاں ہائیرسیکنڈری سکولز بنا دیں، اور پہلے سے موجود تعلیمی اداروں میں سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں۔
ہاجرہ ضلع باجوڑ کی ایک گرلز ہائی سکول میں پڑھاتی ہے، انہوں نے بتایا کہ یہاں لڑکیوں کی تعلیم میں کئی مشکلات ہے لیکن اصل مسئلہ رسم و رواج ہے، دوسری بڑی وجہ باجوڑ میں تعلیمی اداروں کا نہ ہونا ہے۔
ہاجرہ نے بتایا کہ باجوڑ کی 15 لاکھ ابادی کیلئے ایک بھی وومن یونیورسٹی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کی بچیاں باصلاحیت ہیں اور ان میں پڑھنے کا شوق بھی زیادہ ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت ایسے مسائل موجود ہیں، جن کی وجہ سے یہاں کی اکثر بچیاں تعلیم سے دور ہیں۔
ہاجرہ نے اپنی بات اگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ میری فیملی کی سپورٹ اگر میرے ساتھ نہ ہوتی تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتی، انہوں نے کسی کی باتوں کی پرواہ نہیں کی اور مجھے پڑھایا۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
انہوں نے کہا یہاں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم کیلئے دور نہیں بھیجتے۔ اگر تعلیمی ادارے قریب ہوتے تو والدین اپنے بچیوں کے حوالے سے اتنے فکر مند نہ ہوتے اور نہ ہی ان کو سکول جانے سے منع کرتے۔
بخت زمین ڈائریکٹوریٹ آف ہائیر ایجوکیشن کمیشن خیبر پختون خواہ میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر(پی اینڈ ڈی) تعینات ہے،
فاٹا کی خیبر پختونخواہ میں انظمام کی بعد وہ نئے ضم شدہ اضلاع میں کالجز کی نگرانے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واقعی ضم اضلاع میں خواتین کی تعلیم کو اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی وہاں ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہ مرجر کےبعد ضم شدہ اضلاع میں ایسے کالجز بھی ڈھونڈ نکالے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، لوگ کالجز کی بلڈنگ اپنے کاروبار کیلئے استعمال کرتے تھے جس میں ضلع مہمند کا چاندہ گرلز ڈگری کالج بھی شامل ہے۔
بخت زمین مینگل نے بتایا کہ باجوڑ میں مزید کالجز کی ضرورت ہے جس پر ہم کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ کےواحد گرلز ڈگری کالج میں لیبارٹریز کیلئے 5 ملین روپے منظور ہوئے ہیں اس کے علاوہ نئے فرنیچر اور تعمیراتی کام کیلئے بھی الگ الگ فنڈز کی منظوریاں ہوئی ہیں جس پر بہت جلد کام شروع کیا جائے گا۔
واضح رہے ضلع باجوڑ ابادی کی لحاظ سے ضم شدہاضلاع میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ وہاں لڑکیوں کی تعلیمی شرح صرف چار فیصد ہے جو تشویشناک ہے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ ضم شدی اضلاع میں خواتین کی تعلیمی شرح اوپر لانے کیلئے وہاں ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرے، وہاں نئے تعلیمی اداروں کے قیام کوعمل میں لائیں اور جو پہلے سے موجود تعلیمی ادارے ہے ان کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔