سٹیزن جرنلزمقبائلی اضلاع

راستوں کی بندش اور افغانستان سے چلغوزے کی ترسیل پر پابندی، سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے ڈوبنے کا خدشہ

سٹیزن جرنلسٹ دوست علی

پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال چلغوزے کے سرمایہ کاروں کوسخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف پاکستان سے چین کےراستے بند ہیں تو دوسری طرف افغانستان سے پاکستان کوچلغوزے کی بر آمد پر پابندی ہے اور ساتھ میں چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ افراد کو چلغوزہ اندرون ملک لے جانے میں ٹیکسوں کی مد میں بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ وہ مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ اس حوالے سے ضلع بنوں میں مقیم سرمایہ کاروں نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے افغانستان سے پاکستان چلغوزے آتے تھے لیکن اب پاکستان میں راستوں کی بندش کی وجہ ڈائریکٹ افغانستان سے چین بھیجے جاتے ہیں اور 100 روپے فی کلو خرچہ آتا ہے اور جب ہم یہاں پاکستان سے چین کو ایکسپورٹ کرتے ہیں تو فی کلوں 180 روپے خرچہ آتا ہے کیونکہ ہمیں جہازوں یں لے جانا پڑتا ہے اور اس حساب سے ہمیں فی کلو 80 روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔
ایک سرمایہ کار علی خان نے  بتایا کہ ان کے ساتھ گودام میں تقریبا ڈیرھ کروڑ کا مال پڑا ہے اور انکو اب 40 سے 60 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا پچھلے سال چلغوزے کی قیمت تقریبا دو لاکھ پچاس ہزار فی من کے لگ بگ تھی اور انکو لگا تھا کہ شاید اس سال قیمت اور بھی بڑھ چکی ہوگی لیکن اب یہاں صورتحال یہ ہے کہ کوئی ایک بیس ہزار پر لینے کو بھی تیار نہیں ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ چترال, شمالی اور جنوبی وزیرستان سے چلغوزے لانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے پہلے محکمہ جنگلات والے ٹیکس لیتے ہیں پھر کسٹم والے تنگ کرتے ہیں. ایک اور سرمایہ کار نے الزام عائد کیا کہ چترال سے چلغوزے لاتے وقت پرمٹ کی مد میں ادائیگی کے باوجود کمیٹی کے نام پر حکومتی اہلکار بمہ پولیس فی ٹرک بیس ہزار لے لیتے ہیں اور نہ ہی کوئی رسید دیتے ہیں نہ ہی وجہ بتاتے ہیں.
سرمایہ کاروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک تو افغانستان چلغوزے کی ترسیل پر پابندی ہٹائی جائے اور غیر ضروری اور غیر قانونی ٹیکس نہ صرف روکا جائے بلکہ متعلقہ اہلکاروں کیخلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button