‘سویٹ اینڈ گرین پاکستان کو بھی شجرکاری مہم میں شامل کیا جائے’
سٹیزن جلرنلسٹ مصباح الدین اتمانی
‘شہد کی صنعت یعنی مگس بانی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ کلین اینڈ گرین پاکستان کی طرح سویٹ اینڈ گرین پاکستان کو بھی شجرکاری مہم میں شامل کیا جائے’
ان خیالات کا اظہار آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ھنی ٹریڈر ایسوسی ایشن کے صدر سلیم خان نے کیا۔ سلیم خان کا کہنا ہے بدقسمتی سے آج تک شہد کی صنعت کے فروغ کیلئے نہ تو اقدامات اٹھائے گئے اور نہ ہی کسی محکمے نے اس کو قبول کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی مدد آپ کی تحت یہ روزگار کر رہے ہیں، پاکستان میں اس کاروبار سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ سلیم خان نے بتایا کہ شہد کی صنعت کو ترقی دینے کیلئے ملک میں ایسے درخت لگانے کی ضرورت ہیں جو فلورا دیتے ہیں مثلا بیری، شیشم کیکر اور سفیدہ وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ ہر ضلع میں اس کیلئے نرسری ہونی چاہیئے بالخصوص خیبر پختونخوا کے نئے ضم اضلاع میں کیونکہ ضم اضلاع مگس بانی کیلئے انتہائی مناسب موسم رکھتے ہیں۔
سلیم خان نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت جنگلات کی بہت کمی ہیں جس کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جس میں سرسبز پاکستان اور بلین ٹری پراجیکٹ شامل ہیں لیکن اس میں اگر گرین ہانی سویٹ پاکستان کے نام سے ایک اور منصوبہ شامل کیا جائیں جس میں صرف وہ درخت لگانے کا پروگرام ہوں جو فلورا دیتے ہوں اور اس میں شہد پیدا کرنے کی صلاحیت ہوں تو بہتر ہوگا، ان درختوں کی پھولوں سے شہد کے مکھیوں کو خوارک بھی ملے گا اور ساتھ ہی شہد کی مقدار بھی بڑھ جائے گی۔
اس پراجیکٹ میں بھیکڑ، اجوائن،سپیرکئی، موریزہ سرسوں، شفتل اور دوسری جنگلی پودوں کو شامل کرنا شہد کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے بہت ضروری ہے، سلیم خان نے کہا۔
1979 میں افغانستان پر روس کے چڑھائی کی بعد جب مہاجرین پاکستان ائے تو یو این ایچ سی آر نے ان مہاجرین کو روزگار دینے کی غرض سے مکھیوں کے کچھ بکس دیئے جہاں سے پاکستان میں مگس بانی کا باقاعدہ آغاز ہوا، بعد میں آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈر ایسوسی ایشن کی کوششوں سے اس روزگار میں پاکستانیوں نے بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور آج 12 لاکھ سے زیادہ افراد پاکستان میں شہد کی صنعت سے وابستہ ہیں جس کی بنیادی اکائی بی کیپنگ ہیں اس کے بعد ٹریڈنگ اور ایکسپورٹنگ آتا ہے۔
مگس بانی بھی زمینداری کی طرح ایک روزگار ہے، شہد کی مکھیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کو سالانہ اربوں روپے کا فائدہ ملتاہے۔
ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050 تک ریگستان بن جائیں گے۔
عمران خان کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کی مطابق دس بلین درختوں کا ہدف پانچ برس کے لیے ہے۔ پلان کے مطابق پہلے تین سال میں 3.2 بلین درخت لگائے جائیں گے۔ اس وقت ملک میں کل 30 کروڑ پودے نرسریوں میں موجود ہیں جبکہ اب تک 50 کروڑ درخت لگائیں جا چکے ہیں۔
سلیم خان نے کہا کہ باہر کی دنیا میں لوگ بی کیپنگ کیلئے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں، جس سے نہ صرف بی کیپرز کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ شہد بھی خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں اس کیلئے نہ کوئی کارخانہ ہیں اور نہ ہی کوئی توجہ دی جا رہی ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کیوجہ سے مکھیوں میں کئی طرح بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جس پر قابو پانے کیلئے بی کیپرز کے پاس کوئی خاص دوائی نہیں ہوتی ہیں۔ اکثر مگس بان چائینہ سے درآمد دوائیاں استعمال کرتے ہیں، جس کے غلط استعمال کیوجہ سے اکثر مکھیاں مر جاتے ہیں، جس کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ملکی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ بات کی جائیں اور معیاری ادوایات کے تیاری کے ساتھ ساتھ بی کیپرز کے ٹریننگ کا بندوبست کیا جائیں۔
گل بادشاہ آل پاکستان بی کیپرز ایسپورٹرز اینڈ ہنی اییسویسن کے سینئر نائب صدر اور چیمبر آف کامرس خیبر پختون خواہ ہنی سٹینڈنگ کمیٹی کے وائس چیئرمین ہیں، انہوں نے کہا کہ ملک میں مختلف صنعتیں کام کر رہی ہیں لیکن میں جس صنعت سے وابستہ ہوں اور جس کو آگے لے جانے کی کوشش میں ہو وہ شہد کی صنعت ہے جو ملک کی معیشیت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کو آج تک حکومت نے وہ توجہ نہیں دی جو دینی چاہیئے تھی، گل بادشاہ نے بتایا کہ ہم شہد مخلتف ممالک کو در آمد کرتے ہیں۔ ‘ایک وقت تھا کہ ہم سالانہ چھ سے سات سو تک کنٹینرز شہد مختلف بالخصوص عرب ممالک کو ایکسپورٹ کرتے تھے لیکن دہشتگردی اور کم بارشوں کی وجہ سے یہ صنعت متاثر ہوا’ گل بادشاہ نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شہد کے کاروبار سے 12 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے لیکن اگر اس کو توجہ دی گئی تو نہ صرف 18 سے 25 لاکھ مزید افراد کو روزگار ملیں گا بلکہ شہد کی پیداور میں بھی اضافہ ہوگا جس سے ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
گل بادشاہ نے کہا کہ ملک میں مختلف ناموں سے درخت لگانے کا مہم جاری ہے جس میں بلین ٹری سونامی، سر سبز پاکستان اور کلین اینڈ گرین نام کے مختلف منصوبے شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے اس میں ایسے درخت اور پودے لگائے جا رہے ہیں جس میں شہد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریبا 30 ہزار شہد کے مکھیوں کے فارم ہیں جس میں 40 سے 45 لاکھ شہد کے مکھیوں کے بکسز رکھے گئے ہیں، جبکہ پاکستان میں شہد کا سالانہ پیداور 25 سے 30 ہزار ٹن ہے جس کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
بیرے کا ایک درخت سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کے شہد پیدا کرتا ہے جبکہ فلورا دینے والے دیگر درخت بھی اس حساب سے شہد کی مکھیوں کو شہد پیدا کرنے کا موقع دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے درختوں کی کمی پورا کرنے کیلئے پلانٹیشن کرنی ہے تو کیوں نہ ان منصوبوں میں ایسے درخت لگائیں جائیں جس سے ملک کو فائدہ ہو، ملک کا مستقبل روشن ہو،بیرہ، کیکر اور اس طرح دیگر درخت جو فلورا یعنی پھول دیتے ہیں لگانے سے نہ صرف شہد کا پیداور بڑھ جائے گا بلکہ ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا، معیشت مظبوط ہوگی، اور سب سے بڑھ کر روزگار میں اضافہ ہوگا۔
گل بادشاہ نے بتایا کہ قبائلی اضلاع 80 فیصد پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہیں، باجوڑ، کرم، وزیرستان اور ضلع اورکزئی میں دنیا کی بہترین شہد پیدا ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں لوگ گھروں میں شہد کی مکھیاں پالتے تھے لیکن جب سب حالات خراب ہوئے ہیں، مگس بانی پر اثر پڑا ہے۔
محکمہ جنگلات باجوڑ کی مطابق ضلع باجوڑ میں تقریبان 10 لاکھ 20 ہزار مختلف اقسام کی درخت لگائیں جا چکے ہیں جس میں میں کیکر، پلوسہ اور چیڑ شامل ہیں،
اپنی بات اگے بڑھاتے ہوئے گل بادشاہ نے بتایا کہ اگر ضم اضلاع میں ایسے درخت لگائیں جو فلورا دیتے ہیں تو وہاں شہد کی صنعت وہاں موجود معدنیات کی طرح نام پیدا کر سکتی ہے کیونکہ یہاں کا موسم بہترین ہوتا ہے اور زمین بھی کافی زرخیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ پلانٹیشن منصوبوں میں شہد دوست درخت شامل کرنے کیلئے ہم نے اعلی حکام سے کئی میٹنگز کی ہیں۔ ہم نے کئی میٹنگز کی ہیں اب وزیر اعظم کی ہدایت پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں ہمارے یونین کے عہدیداروں سمیت نفیسہ خٹک بھی شامل ہیں۔
ہماری کوشش ہے کہ ایسے درخت لگائیں جائیں جس سے شہد کی مکھیاں آسانی سے شہد بھی حاصل کریں اور وہ ماحول کیلئے بھی مفید ہو۔ انہوں نے کہا کہ شہد کی مکھیاں پولینیشن عمل میں اپنا کردار ادا کرتی ہے جس سے فروٹ اور اجناس کی پیداوار میں بھی 30 سے 35 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔