”طورخم میں نصب سکینر فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بن رہا ہے”
محراب آفریدی
طورخم میں کام کرنے والے بعض کلئیرنگ ایجنٹس نے کہا ہے کہ کسٹم ایکسپورٹ پالیسی میں زیرو پوائنٹ پر سکینر کا کوئی ذکر نہیں البتہ درآمدات کے لئے اگر سکینر نصب ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے پرچون سامان لانے والی گاڑیوں کی تعداد ساٹھ سے زیادہ یومیہ بنیادوں پر ہوا کرتی تھی جو کہ اب کم ہو کر چار پانچ پر آگئی ہے جس سے قومی خزانے، برآمد کنندگان اور دیگر لوگوں کو نقصان ہو رہا ہے اور دوسری طرف افغانستان جیسے قریبی منڈی اور مارکیٹ سے ہماری مصنوعات غائب اور ان کی جگہ دوسرے ممالک کی مصنوعات نے لے لی ہے جس سے ہماری صنعتوں اور مصنوعات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
کسٹم کلئیرنگ ایجنٹس کے مطابق طورخم میں لگایا گیا سکینر ایک تو آئے روز خراب ہوتا ہے دوسرا اس سکینر کو برآمدات یعنی ایکسپورٹ کے لئے لگانا سراسر خلاف قانون ہے اور ایکسپورٹ پالیسی میں سکینر کی کوئی گنجائش نہیں جس کی وجہ سے پرچون سامان لانے والی گاڑیوں میں بہت بڑی کمی واقع ہوئی ہے جس سے برآمدات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا نقصان قومی خزانے, ملکی کارخانوں اور تاجروں کو ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایکسپورٹ کے لئے سکینر لگا کر کسٹم حکام اور این ایل سی والے غلط اور خلاف قانون کام کرتے ہیں اور اس طرح کسٹم حکام اور این ایل سی والے برآمدات میں مشکلات پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سارا نقصان ہو رہا ہے اور سکینر پر تعینات عملے کا رویہ بھی قابل ستائش نہیں جس کو ہٹانا ضروری ہے اور اسی سکینر کی وجہ سے اڈوں کے مالکان بھی زیادہ وزن کی اجازت نہیں دیتے جس سے ان کا بھی اور ٹرانسپورٹروں کا بھی نقصان ہو رہا ہے لہذا ایکسپورٹ کے حوالے سے سکینر کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہو اور افغانستان میں پاکستانی مصنوعات اور پروڈکٹس کے لئے مارکیٹ میں جگہ بنائی جا سکے جس سے ملکی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
ایجنٹوں کے مطابق یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کسٹم حکام کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ وہ کیسے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کر سکیں گے اور اسلام آباد وغیرہ سے ایسے افسران کو لا کر بٹھایا گیا ہے جن کو مقامی تاجروں کے کاروبار اور جائز مفادات کی بھی کوئی فکر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ این ایل سی کے طورخم میں آنے سے مشکلات بڑھی ہیں اور سہولیات دینے کے بجائے لوگ آئے روز ان کے خلاف دھرنے دیتے رہے ہیں اور این ایل سی کی وجہ سے ہزاروں مقامی لوگوں کا کاروبار برباد ہوا ہے اور مزید یہ کہ کسٹم حکام کی نااہلی کی وجہ سے برآمدات میں اضافے کے بجائے مسلسل کمی آرہی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔