قبائلی اضلاعکورونا وائرس

‘سارے گھر والے یاد آ رہے ہیں لیکن کرونا کی وجہ سے نہیں جاسکتا’

 

نبی جان اورکزئی

دنیا بھر میں پھیلنے والی وبائی مرض کرونا نے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں کاروبار کی غرض سے رہنے والے لاکھوں پاکستانی اس امید پر تھے کہ حالات میں قدرے بہتری آنے سے وطن عزیز جا سکیں گے لیکن اب اسلئے نہیں آ سکتے کہ واپسی پر ان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
متحدہ عرب امارات کے دبئی میں رہائش پزیر قبائلی ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے شاہد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پہلے چھٹیاں نہیں مل رہی تھی اور بعد میں کرونا پھیل گیا تو فلائٹس بند ہوگئی جس کی وجہ سے پچھلے دو سال سے اپنے ملک پاکستان نہیں گیا ہے۔
‘اس سے پہلے کبھی اتنا عرصہ نہیں گزرا ہے۔ سارے گھر والے یاد آ رہے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ اپنے ملک جاؤں گھروالے، رشتہ داروں اور عزیز و عقارب سے ملوں لیکن کرونا کے ڈر کی وجہ سے نہیں جا سکتا کہ واپسی میں کوئی نئی مشکل ان نہ پڑے’ شاہد الرحمٰن نے کہا۔
شاہد الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ یہاں پر کام کرنے والی کمپنی بھی واپس آنے کی گارنٹی نہیں دیتی ہے۔ کمپنی والے کہتے ہیں کہ ملک سے واپس آنے والے ملازمین کو اپروول کا مسٔلہ آسکتاہے۔ بس یہی ڈر ہے کہ اپنے ملک نہیں جا سکتا ہوں کیونکہ میں گھر کا واحد کفیل ہوں۔
ایک طرف اگر لاکھوں پاکستانی بیرونی ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں تو ایسے ہزاروں پاکستانی ایسے بھی ہے جو کرونا وباء کی وجہ پاکستان میں مقید ہوئے تھے اور واپس نہیں جا سکتے ہیں۔ان میں سے ضلع کرم کے علاقہ صدہ سے تعلق رکھنے والے رئیس خان بھی ہے جوکہ کرونا سے پہلے چھٹیوں پر قطر سے پاکستان آئے تھے اور پیچیدہ قانونی کارروائی اور مہنگے ٹیکوں کی وجہ سے واپس نہیں جاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قطر سے فروری میں تین ماہ کیلئے پاکستان آیا اسی دوران کرونا وباء پھیل گیا جس کی وجہ فلائٹ آپریشن غیر معینہ مدت تک معطل ہوگئی جس کی وجہ سے تین ماہ بعد قطر نہیں جا سکا اب جب فلائٹس اپریشن بحال ہوگئی ہے تو مہنگے ٹکٹس ،کرونا ٹیسٹ، قطر میں قرنطینہ ہونے کیلئے ہوٹل بکنگ نے مسافروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام لوازمات پورا کرنے پر تین لاکھ سے زیادہ خرچہ آتا ہے جو کہ میرے پاس نہیں ہے۔

وہ سمندر پار پاکستانی جو وباء پھیلنے سے قبل چھٹیوں پر اپنے ملک آئے تھے کا کہناہے کہ کرونا وباء کے باعث وہ گزشتہ کئی مہینوں سے اپنے گھروں میں بے روزگار بیٹھے تھے، کرونا میں کمی کے ساتھ حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں اور پاکستانیوں کے لئے مختلف ملکوں نے اپنے دروازے کھلنا شروع کردئے ہیں تاہم محنت مزدوری کی عرض سے کام پر جانے والے مسافر نئی مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ متعلقہ ملکوں کے لئے حد سے ذیادہ مہنگے جہازوں کے ٹکٹس، کرونا ٹیسٹ اور قرنطینہ سنٹر کے بکنگ کی ادائیگی ان کے بس سے باہر ہے۔

اس سلسلے مسافروں نے پشاور میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا، ٹکٹوں کے حوالے سے ٹریول ایجنٹ شاہین گل کا کہنا تھا کہ کرونا وباء کے بعد ہوائی سروس شروع ہونے پر مسافر جہازوں کے عملے نے اپنے ٹکٹس کو بلیک پر بھیجنا شروع کردیا، جس کی وجہ سے ٹکٹس کی مانگ میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگ مجبوری میں مہنگے داموں ٹکٹس خرید رہے ہیں، تاکہ دوبارہ ان ملکوں میں جاکر محنت مزدوری شروع کرسکیں۔ مسافر جہازوں کا عملہ ٹکٹس معروف ٹریول ایجنسیوں کو مہنگے داموں بھیج رہے ہیں، جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی، عام ٹریول ایجنٹس کا اس صورتحال میں کوئی قصور نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے قومی ائیر لائن کے عملے نے بھی یہی ٹیکٹس بلیک پر فروخت کی ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے شعبہ ایکنومک اور سوشل افیئرز کے مطابق دنیا میں پاکستان کا شمار چھٹے نمبر پر ہے جن کے شہری اپنے ملک سے باہر مختلف ممالک میں رہتے ہیں اسی طرح اوورسیز پاکستانی اور ہیومین ریسورس ڈیولپمنٹ کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً اسی لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہیں جن میں چالیس لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں نے خلیج ملکونوں میں کام کاج کے سلسلے میں رہائش اختیار کر رکھی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button