110 ارب روپے سالانہ کا حساب دیا جائے۔ ملک دین خیل قومی کونسل
ضلع خیبر، ملک دین خیل قومی کونسل نے کہا ہے کہ فاٹا انضمام کے بعد ضم اضلاع کو سالانہ ایک سو دس ارب روپے کا حساب دیا جائے اور ملنے والی رقم عوام کی ترقی اور فلاح بہبود پر خرچ کی جائے، دہشت گردی کے دوران مسمار شدہ بعد ازاں تعمیر ہونے والے گھروں کو سروے میں شامل اور خاندان کی بنیاد پر سروے کر کے معاوضہ ادا کیا جائے، شین کمر تیراہ روڈ کا سروے کر کے تاریخی راستے پر تعمیر کیا جائے، ضم اضلاع کی پسماندگی کے ذمہ دار سابقہ فاٹا کے بیوروکریٹ ہیں جو اب صوبے میں حکومتی معاملات چلا رہے ہیں اور اگر قبائل کو حقوق حاصل نہ ہوئے تو احتجاج اور دھرنوں سے دریغ نہیں کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار ملک دین خیل قومی کونسل کے چیئرمین عبدالواحد آفریدی، صوبائی ممبران اسمبلی حاجی شفیق آفریدی، الحاج شفیق شیر آفریدی، الحاج بلاول آفریدی، نصیر خان، معروف کاروان کے حاجی معروف خان، ملک وارث خان، پی ایم ایل کے ظاہر شاہ، جے یو آئی کے مولانا شمس الدین، جرگہ پاکستان کے عابد آفریدی، اے این پی کے عمران آفریدی، شان اکبر آفریدی، تحریک انصاف کے جاوید آفریدی، حاجی عبد الکریم، نصراللہ، پاکستان زندہ باد کے سیف اللہ، حاجی دوران گل دولت خان صائم خان اور دیگر نے ملک دین خیل قومی کونسل کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر بریگیڈیئر (ر) میر احمد خان نے نومنتخب کونسل اراکین سے حلف لیا۔ مقررین نے کہا کہ قومی کونسل ملک دین خیل کے سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنوں کا مجموعہ ہے جو سیاسی اختلافات سے بالا تر ہو کر علاقے کی ترقی کیلئے متحد ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندے اور نوجوان متحد ہو کر علاقے کی پسماندگی کے خاتمے اور ترقی پر توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائل اور آفریدی قبائل اپنے حقوق کیلئے متحد ہو چکے ہیں۔ ملک دین خیل قومی کونسل نے آفریدی اقوام کو متحد کیا۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل نوجوانوں کا ہے، ہمارے آباؤ اجداد نے جو تاریخ رقم کی ہے نوجوان اس تاریخ کو زندہ رکھیں، انضمام کے بعد عوام کی امید تھی کہ پسماندہ علاقوں میں ترقی و خوشحالی کا دور آئیگا لیکن اب تک ضم اضلاع کی ترقی کیلئے حقیقی معنوں میں اقدامات نہیں کئے گئے، انضمام کے دوران بیس ہزار لیوی فورس کی بھرتی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن بھرتی نہیں ہوئی تین سال گزرنے کے باوجود ایک سال کے ایک سو دس ارب روپے خرچ نہیں ہوئے۔
مشران نے کہا کہ قبائل 72 سالوں سے ترقیاتی کاموں سے محروم ہیں اور بیس سال سے دہشت گردی کی جنگ کا شکار ہیں لہذا سالانہ ایک سو دس ارب روپے کے فنڈز جاری کر کے قبائلیوں کی احساس محرومی ختم کیا جائے۔