”ضم اضلاع کے طلباء کو جامعات میں داخلوں سے محروم نہ کیا جائے”
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کے چیئرمین سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کے طلبا کی جانب سے ایسی شکایات موصول ہوئی ہیں جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبا کو پنجاب کی اکثر یونیورسٹیوں میں داخلے محض اس بنیاد پر نہیں دیئے جا رہے کہ ان کی فیسوں کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔
انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت سے رابطہ کیا جائے گا تا کہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔ سینیٹر تاج محمد آفریدی نے ان خیالات کا اظہار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، کمیٹی کا اجلاس آج پارلیمنٹ ہاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا کہ انضمام شدہ اضلاع کے طلبا نے مشکل وقت کا سامنا کیا ہے اور ہدایات دیں کہ ان کے داخلوں کا عمل نہ روکا جائے اور تمام جامعات اس سلسلے میں تعاون کریں۔
طلبا کی فیسوں کی معافی کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے فاٹاکے طلبا کو فیسوں میں چھوٹ کا اعلان کیا تھا جو کہ بعد میں واپس لیا گیا تاہم ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کوئی ایسی تجویز نہیں گئی جس کے تحت فیس معافی کو ختم کرنے کیلئے کہا گیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ برسر احتجاج کیوں؟
قبائلی طلباء کیلئے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں نشستیں ڈبل
قبائلی علاقوں میں تعلیمی پسماندگی کی وجوہات اور اثرات
داخلوں سے محروم ایٹا ٹیسٹ پاس کرنے والے قبائلی طلبہ بے چینی کا شکار
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کے بجٹ میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ فیس کی مد میں رقم مختص کر سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں اور اس کا جلد ہی کوئی مناسب حل نکال لیا جائے گا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی چیئرپرسن نے بتایا کہ چونکہ اس میں مالی وسائل کے استعمال سے متعلق امور شامل ہیں لہٰذا تمام صوبائی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ مل کر ایک مالی ضابطہ کار طے کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں سب کو اون بورڈ لیا جائے۔
خیبر پختونخواہ کی ہائر ایجوکیشن ڈپیارٹمنٹ کے فاٹا کے ایک طلبعلم سے صرف پانچ ہزار لیئے جاتے ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امور کو چلانے کیلئے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ہماری کوشش ہے کہ فاٹا کی نوجوان نسل کو تعلیم کی سہولت گھر کی دہلیز پر دی جائے لیکن مالی مسائل ہیں اور اس سلسلے میں کمیٹی کی مدد درکار ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اگر صحیح اعدادوشمار کا تعین ہو جائے تو حل نکالنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور وفاقی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن جامعات کے امور کو دیکھتے ہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن 149جامعات کو فنڈ دیتا ہے جس سے تنخواہیں، تعمیراتی کام اور روٹین کے اخراجات پورے ہوتے ہیں اور اپریشنل معاملات چلانے کیلئے جامعات فیسوں پر انحصار کرتی ہے۔ پنجاب کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ طلبا کے داخلوں کے عمل کو نہیں روکا جائے گا اور اس سلسلے میں تمام یونیورسٹیوں کو باضابطہ آگاہ بھی کیا جائے گا۔