‘جہاں سہولت نظر آئی وہاں بسیرا کرلیا جہاں پانی دانہ ختم ہوا وہاں سے کوچ کرلیا’
سٹیزن جرنلسٹ مصباح الدین اتمانی
‘یہ پیغمبروں کا پیشہ ہے، دنیا کے تمام مصائب اور مشکلات سے ہم بے خبر رہتے ہیں، خانہ بدوشوں کا کوئی ایک ٹھکانہ سرحد یا گھر نہیں ہوتا آزاد پنچھی ہیں جہاں سہولت نظر آئی وہاں اپنا بسیرا کرلیا جہاں پانی دانہ وہاں ختم ہوا وہاں سے کوچ کرلیا’ یہ کہنا ہے افغانستان کے صوبے لوگر سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ خانہ بدوش الماس خان کا جو باجوڑ کے تحصیل اتمانخیل میں نہر کے کنارے دنیا سے بے نیاز بیٹھا اپنے تین سو بھیڑ پر مشتمل ریوڑ چرا رہا تھا۔
لگی ٹینٹ میں ایک بوڑھی خاتون، ایک مرد اور تین لڑکیاں ںظر آئی میرے ہاتھ میں مائیک دیکھ کر الماس خان کا چہرہ چمک اٹھا اور اپنے چھوٹے بھائی الیاس کو ریوڑ سنبھالنے کیلئے کہا۔
اباوں اجداد افغانستان میں زمینداری کیا کرتے تھے، روس کی چڑھائی کے بعد شروع ہونے والے جنگ کی وجہ سے سرحدی راستے سے پشاور منتقل ہو گئے جس کے بعد کوئی مستقل ٹھکانہ نصیب نہیں ہوا۔ الماس خان نے کہا۔
اپنا ملک ماں کی طرح ہوتا ہے لیکن جنگوں اور انقلاب کیوجہ سے ابھی تک نہیں دیکھا اللہ کریں کہ وہاں امن قائم ہو جائیں۔
الماس خان نے بتایا کہ ہمارا مستقل کوئی ٹھکانہ نہیں، ہم موسم کے حساب سے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے ہیں اس وجہ سے پچھلے دو مہینوں سے باجوڑ میں آباد ہیں۔
الماس خان نے بتایا کہ موسمی تغیرات سے ہم بری طرح متاثر ہوتے ہیں، بارش میں سر کا مستقل چھت نہ ہونے کیوجہ سے نہ صرف ہمیں مشکلات ہوتی ہیں بلکہ ہمارے جانوروں کے ریوڑ بھی محفوظ نہیں ہوتے اور ہمیں مالی و جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گرمیوں میں دھوپ کا ذکر کرتے ہوئے الماس خان نے بتایا کہ شدید دھوپ اور خیموں کی تپش دیکھ کر کوئی یہاں ایک دن نہیں گزارے گا لیکن یہ ہمارا کام ہے اور اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
انیس سو ساٹھ میں جب پاک افغان سرحد بند کر دی گئی تو اس دوران بھی ان خانہ بدوشوں کو سرحد پار کرنے کی آزادی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 8 لاکھ سے زیادہ خانہ بدوش آباد ہیں جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔ یہ لوگ انتہائی پرامن ہوتے ہیں اس لئے ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی اور یہ سال بھر موسم کے حساب سے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے ہیں۔
الماس خان نے مزید بتایا کہ ہمارے بچے دینی علوم تو حاصل کرتے ہیں لیکن مستقل رہائش نہ ہونے کیوجہ سے وہ سکول سے محروم رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواہش کہ ان کے بچے بھی پڑھے کیونکہ تعلیم کی مثال آنکھوں کی ہے، ہم کہیں جاتے ہیں تو پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں، آج کل کے زمانے میں ان پڑھ کا مثال اندھے جیسا ہے لیکن کیا کریں انکی مجبوری ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں چراگاہیں ہری ہوتی ہیں تو ہم اپنے ریوڑ ان میں چراتے ہیں،لیکن سردیوں میں چراگاہیں خشک ہو جانے کے بعد ان کیلئے گندم وغیرہ خریدتے ہیں اور تیار خوراک دیتے ہیں، جس پر سالانہ دو لاکھ سے زیادہ خرچ آتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں کئی اقوام کے ساتھ خانہ بدوشوں کے زمینوں پر تنازعات چلے آرہے ہیں جن میں صوبہ غزنی کے علاقے مالستان اور صوبہ وردک کے علاقے بھسود میں ہزارہ قبیلے کے ساتھ، صوبہ لوگر کے علاقے ازرہ اور صوبہ خوست کے علاقے درای میں پشتونوں کے ساتھ، صوبہ کابل کے سبزبگرام کے علاقے پروان میں تاجک کے ساتھ جبکہ کابل کے خاک جبار میں پشتونوں وتاجک اور قندوز کے امام صاحب میں اوزبک اور پشتون کاشتکاروں کے ساتھ مسائل قابل ذکر ہیں۔
خانہ بدوش برادری سے باہر شادیاں نہیں کرتے، کیونکہ رسم و رواج الگ اور سخت ہیں تو ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے کی وجہ سے اپنی برادری میں ہی شادی کی جاتی ہیں ، الماس خان نے بتایا۔
خانہ بدوش خواتین بہت محنت کرتی ہیں، وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں جس کیوجہ سے جسمانی طور پر بڑی مضبوط ہوتی ہیں۔ خانہ بدوشوں میں لڑکیوں کی شادیاں 14 سے 20 سال تک عمر میں انتہائی سادگی سے کروائی جاتی ہیں۔
الماس خان نے باجوڑ کے لوگ کے بارے میں بتایا کہ بہت اچھے ہیں، یہاں انکا وقت بھی اچھا گزر رہا ہے،یہ علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک افغانستان میں ہیں۔
ان خانہ بدشوں کے معاش کا درمدارمویشوں سے حاصل ہونے والے آمدن پر ہے ۔وہ بھیڑ بکریوں سے دودھ لیکر اُن سے مختلف اشیاء تیارکر کے نہ صرف خود استعمال کرتے جبکہ ضرورت سے زیادہ دیسی گھی ، پنیر، کورت اور لسی وغیرہ بازار میں فروخت کرتے ہیں۔
عید الضحی پر بڑی تعداد میں افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں دبنے کی قربانی کرتے ہیں جس سے خانہ بدوش مالی طورپر مستحکم ہو جاتے ہیں۔ الماس خان کے مطابق وہ سالانہ چھ سے سات لاکھ روپے کے جانور فروخت کرتے ہیں۔
اگر کوئی مرض یا بیماری ہو تو پھر ان کی سالانہ آمدن چار سے پانچ لاکھ روپے ہوتے ہیں جس سے ان کا گزارہ ہو جاتا ہے۔
خانہ بدوش چرواہوں کے دو قسام ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو معاوضے پر کام کرتے ہیں ان کو یہ تو ماہوار حساب سے تنخواہ ملتی ہیں یا پھر ان کو پیدا ہونے والے بچوں میں سالانہ حساب سے مخصوص حصہ دیتے ہیں جبکہ دوسرا قسم اپنے ذاتی جانور رکھتے ہیں۔
چند سال پہلے پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا گیا جو اب مکمل ہوچکا ہے، لیکن سرحد پار دہشت گرد حملوں کی روک تھام کے لئے آنے جانے پر کھڑی نظر اورآمد ورفت کے لئے سخت شرائط کیوجہ سے افغان خانہ بدوش بری طرح متاثرہوئے ہیں اور اب ان کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا رہتی ہیں۔
اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر خار باجوڑ فضل الرحیم بتایا کہ پہلے سے اگر یہ لوگ پاکستان میں آباد ہیں اور ان کے پاس پاسپورٹ ہو یا افغان کارڈ ہو تو ان کو اتنے ہی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جتنے پاکستانی شہریوں کو میسر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر خانہ بدوش پشاور، مردان یا کسی اور ضلعے سے باجوڑ آرہے ہیں تو ان کو نہ صرف این او سی دیا جاتا ہے بلکہ ان کیلئے خصوصی سکیورٹی کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر خار فضل الرحیم نے کہا کہ پاکستانی معیشت اور معاشرے پر ان کے کافی اچھے اور مثبت اثرات ہیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ایک مخصوص اور اچھا ثقافت لائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب حالات مزید بہتر ہو رہے ہیں، حکومت نے اچھے طریقہ کار کے تحت ان مہاجرین کو کارڈز جای کئے ہیں جو باقاعدہ ٹریس ہوتے ہیں، ملگ کی دیگر حصوں کیطرح باجوڑ پر بھی خانہ بدوشوں کی اثرات ہیں۔
چونکہ باجوڑ پاک افغان سرحد پر واقع پاکستان کا پہلا ضلع ہے اس لئے اثرات مثبت ہو یا منفی سب سے نمایاں ہوتے ہیں جس کیوجہ سے ان لوگوں کو اچھے طریقے سے ہینڈل کرنا ضلعی انتظامیہ کے اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔
پچھلے چند سالوں سے جاری موسمی تغیرات کے منفی اثرات اور سرحد پر پاک افغان کشیدگی کیوجہ سے خانہ بدوش بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
اس کے علاہ جنگلوں کی بے دریغ کٹائی اور کم بارشوں کیوجہ سے چراگاہیں خشک ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ بازاروں سے تیار چارہ لانے پر مجبور جاتے ہیں جس پر کافی خرچ آتا ہے۔
سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بڑھنے کیوجہ سے ان لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ آبادی میں مسلسل اضافے کیوجہ بڑے بڑے میدان ختم ہو چکے ہیں جہاں یہ لوگ اپنے ریوڑ رکھتے تھے جس کیوجہ سے اکثر خانہ بدوشوں نے اپنے ابا و اجداد کے اس کام کو خیر باد کہہ دیا ہے۔