ضلع کرم میں دو نوجوان لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات کیا ہیں؟
انورشاہ اورکزئی سے
والدین کی غفلت، شعور کی کمی اور ظالمانہ رسم و رواج کی وجہ سے ضلع کرم علاقہ بگن اور اوچت میں دو لڑکیوں نے اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔
نمائندہ ٹی این این کے مطابق بگن لوئر کرم میں ایک سولہ سالہ لڑکی نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کر لی، ذرائع کے مطابق لڑکی کے والدین چاہتے تھے کہ اس کی شادی اپنے کزن کے ساتھ ہو جائے مگر لڑکی راضی نہیں تھی، لڑکے کے والدین بھی چاہتے تھے کہ اس لڑکی کے ساتھ ان کے بیٹے کی شادی ہو جائے حالانکہ لڑکی کا بھائی پہلے ہی اپنی کزن کو طلاق دے چکا تھا جس کی وجہ سے مرحومہ کو ڈر تھا کہ اسے بھی طلاق دے کر بدلہ لیا جائے گا، لڑکے نے مرحومہ سے پہلے ہی کہا تھا کہ تیرے بھائی نے میری بہن کو طلاق دی ہے، میں بھی شادی کے کافی عرصہ بعد تجھے طلاق دوں گا اور بدلہ لوں گا، یہی وجہ ہے کہ سولہ سالہ بے گناہ لڑکی نے زہریلی دوا پی کر اپنی زندگی کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کر دیا۔
بگن چیک پوسٹ کے محرر رفیق سے رابطہ کر کے اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
دوسری طرف لوئر کرم اوچت میں بھی تقریباً انیس سالہ شادی شدہ لڑکی نے سسرال کے رویے سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔
ذرائع کے مطابق ڈیڑھ سالہ قبل شادی ہوئی تھی مگر لڑکی کو سسرال کی جانب سے بہت تنگ کیا جا رہا تھا، بار بار تنگ کئے جانے کے باعث لڑکی نے گھر میں بندوق اٹھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا تاہم واقعہ کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ بندوق بہت بڑی ہوتی ہے جبکہ گولی پیٹ میں لگی ہے اور ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی اتنی بڑی بندوق سے اپنے پیٹ کو نشانہ بنا سکے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق تاحال لڑکی کے والدین نے کسی پر شک نہیں کیا ہے، والدین کو وقت دیا گیا ہے کہ اگر کسی پر شک ہو تو بعد میں آپ رپورٹ درج کر سکتے ہیں۔
مقامی نوجوانان ساجد الرحمن، رحمت شاہ اور مولانا صابر شاہ کا کہنا تھا کہ معاشرے میں شعور کی کمی ہے اور لوگ وہی پرانے حربے اور ظالمانہ طریقے استعمال کر رہے ہیں جو ٹھیک نہیں ہے، شادی سے پہلے لڑکی سے پوچھا جائے اور وہ راضی نہ ہو تو شادی پر مجبور نہ کیا جائے جبکہ شادی شدہ لڑکی کی زندگی جہنم زار نہ بنائی جائے اور اگر کوئی عورت طلاق لینا چاہتی ہے تو طلاق دی جائے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ قبائلی علاقوں سے یہ رواج ختم کیا جائے کہ کوئی شادی شدہ لڑکی طلاق نہیں لے سکتی اور اگر طلاق دی جائے تو پھر اس پر یہ پابندی بھی ختم کی جائے کہ وہ اپنے علاقے یا ضلع میں شادی نہیں کر سکتی ہے حالانکہ طلاق کے بعد عورت کا اختیار ہے کہ جہاں وہ چاہے شادی کر سکتی ہے۔