”ضلع خیبر پولیس کی 327 آسامیاں جلد پُر کی جائیں گی”
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈاکٹر اقبال خان نے ضلع خیبر میں گزشتہ ایک سال کے دوران ضلعی پولیس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل قریب میں قبائلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی پولیس میں بھرتی ہونے سے یہاں پولیس کا نظام مزید بہتر اور موثر بن جائے گا، سابقہ استحصالی نظام سے قبائلی لوگ تنگ تھے اس لئے پولیس نظام بہت کم وقت میں قبائلی اضلاع میں کامیابی کی جانب گامزن ہوا ہے۔
شاہ کس لیوی سنٹر میں خیبر پولیس کی سالانہ کارکردگی کے بارے میں میڈیا کانفرنس میں ڈاکٹر اقبال خان نے کہا کہ جب سے قبائلی ضلع خیبر، خیبر پختونخواء میں ضم ہوا ہے یہاں اس نئے پولیس نظام کی کارکردگی قابل ستائش ہے کیونکہ یہاں سابقہ نظام کے مقابلے میں ریکارڈ بہتری نظر آنے لگی ہے۔
ڈی پی او خیبر کے مطابق پورے ضلع میں اب تک مختلف جرائم کے خلاف 422 مقدمات درج کئے گئے جن میں 624 ملزمان ملوث رہے اور 602 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جس میں 282 افراد کو چالان کیا گیا جن کے عدالتوں میں ٹرائلز چل رہے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال خان نے کہا کہ ضلع خیبر میں قتل، اغواء برائے تاوان سمیت دیگر مقدمات میں ملوث ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کے نتیجے میں اب تک 70 فیصد ملزمان گرفتار کئے گئے، انضمام کے بعد یہاں پانچ بلائنڈ مرڈر کیسز بھی رونماء ہوئے جن کی نشاندہی کرکے ہمارے انوسٹی گیشن ٹیموں کی انتھک محنت کی بدولت اہم کامیابیاں ملیں۔
ضلع خیبر میں جرائم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کیسز نارکاٹکس کے ہیں اور اب تک 104 مقدمات میں 116 افراد کو گرفتار کئے گئے، ایک سال کے دوران مختلف چیک پوسٹوں پر اور چھاپوں کے دوران 611 کلوگرام چرس، 213 کلوگرام ہیروئین، 80 کلوگرام افیون اور 6 کلوگرام آئس ملزمان سے برآمد کئے گئے۔
کے پی پولیس میں سابقہ خاصہ دار و لیوی فورسز کے انضمام ڈی پی او خیبر کا کہن تھا کہ سابقہ فورسز کے اب تک 3850 تک جوان پولیس میں ضم کئے جا چکے ہیں جبکہ باقی 109 اہلکاروں کو بھی جلد ضم کر دیا جائے گا۔
پولیس میں نئی بھرتیوں کے حوالے سے ڈاکٹر اقبال نے کہا اس وقت ضلع خیبر میں 327 خالی آسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع کیا جائے گا جن میں پولیس کانسٹیبل اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ایس آئی وغیر ہ بھرتی ہوں گے جو خالصتاً میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر بھرتی کئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ وقت گزر گیا کہ کہ فرسودہ نظام کے تحت ملک اور اثر و رسوخ والے لوگ سفارش کے بل بوتے پر بھرتی ہوتے تھے بلکہ اب یہاں قانون اور میرٹ کو ترجیح دی جائے گی، نئے اور نوجوان تعلیم یافتہ لوگ پولیس میں آنے سے یہاں پولیس نظام اور بھی مضبوط ہو جائے گا۔
ضلع خیبر میں ٹریفک نظام کے بارے میں ڈی پی او نے بتایا کہ بہت کم عرصہ میں یہاں ٹریفک نظام بحال کیا گیا ہے اور علاقائی بازاروں میں ٹریفک نظام کے تحت قوانین کی پیروی جاری ہے، ٹریفک ہیڈ کوارٹر کے قیام سے ڈرائیونگ لائسنس کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور اب تک ضلع بھر میں 2308 افراد کو ڈارائیونگ لائسنس کے اجراء کے ساتھ ساتھ 4042 افراد کو لرننگ پیپرز جاری کئے گئے ہیں۔
پولیس میں تفتیشی نظام کے بارے میں انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں اور بالخصوص ضلع خیبر کے متعدد پولیس اہلکاروں کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تربیت دی گئی جس کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں، اب تک 140 افراد کی گرفتاری اور سزائیں اسی تربیت کی مرہون منت ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ڈی پی او نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے، منشیات کی پکڑ دھکڑ کے بارے اور اب تک کی کاروائیوں میں ظاہر کی گئی منشیات کی مقدار پر تنقید اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جو بھی منشیات پکڑی گئیں ان کی مقدار جینوئن ہے اور یہاں کوئی ایسی بات نہیں جو سابقہ دور میں اصلی منشیات کو تبدیل کرکے ان کی جگہ دو نمبر منشیات رکھ دیتے تھے، یہاں ایک شفاف طریقے سے منشیات کی روک تھام کا سلسلہ جاری ہے اور منشیات سمگلنگ میں ملوث لوگوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
پریس کانفرنس کے دوران ڈی پی او نے علاقائی صحافیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایف سی آر کے فرسودہ نظام کے خاتمے اور فاٹا انضمام میں قبائلی صحافیوں کی قربانی تاریخ کا حصہ ہے اور ان سے یہ توقع ہے کہ وہ قبائلی اضلاع میں پولیس نظام بہتر کرنے میں بھر پور تعاون کریں گے اور مثبت کردار کا یہ تسلسل جاری رکھیں گے۔