دہشت گردوں کے خلاف آپریشن صوبائی حکومت کی مرضی کے خلاف نہیں ہو گا۔ امیر مقام
آپریشن کرنا یا فوج کو بلانا صوبائی حکومت کے اختیار میں ہے جبکہ بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہائی کسی کمیٹی کا اختیار نہیں بلکہ عدالت کے ذریعے ہو گی۔ پشاور پریس کلب میں میڈیا سے بات چیت
وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان و کشمیر امور امیر مقام نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن صوبائی حکومت کی مرضی کے خلاف نہیں ہو گا، آپریشن کرنا یا فوج کو بلانا صوبائی حکومت کے اختیار میں ہے جبکہ بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہائی کسی کمیٹی کا اختیار نہیں بلکہ عدالت کے ذریعے ہو گی۔
پشاور پریس کلب میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امیر مقام کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی ذمہ داری مرکز سمیت صوبے اور اداروں کو مل کر پوری کرنا ہو گی؛ صوبے کے چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ ہیں، اگر صوبہ چاہے گا تو آپریشن ہو گا اور صوبے کے کہنے پر ہی فوج آتی ہے، پی ٹی آئی کی 10 سالہ ناکامی کو پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے ذریعے چھپانے کی کوشش بے نقاب ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نمائندے کے پی حکومت سے فنڈز اور دیگر حقوق کے لیے پرامن احتجاج کر رہے تھے لیکن ان پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی۔ پشاور میں منتخب نمائندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں، اس سے پی ٹی آئی کے دہرے معیار کی سیاست بے نقاب ہو گئی ہے۔
امیر مقام نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے اور صرف وہ مطالبات پورے کیے جائیں گے جو قانونی اور آئینی دائرہ کار میں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی آمد: پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہو گا؟
امیرمقام نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے بانی کے کیسز سنگین نوعیت کے ہیں جن کا فیصلہ عدالتوں کے ذریعے ہو گا نہ کہ مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے؛ عدلیہ آزاد ہے، پی ٹی آئی کے بانی سنگین نوعیت کے کرپشن کیسز میں جیل میں ہیں اور ان کے تمام کیسز میں فیصلے عدلیہ ہی کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، جیسا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سمیت وہ خود بھی عدالتوں میں پیش ہوئے اور ٹرائل کے بعد بری ہوئے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا مینڈیٹ چرانے اور آر ٹی ایس بٹھا کر اور پولنگ میں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کے بانی کو اقتدار میں لایا گیا: "یہ افسوس ناک بات ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے موجودہ مذاکراتی عمل کے باوجود حکومت کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔
2014 کے بے مقصد 128 دن کے دھرنے کی طرح پی ٹی آئی کی نومبر 2024 کی احتجاجی کال بھی ناکام ثابت ہوئی کیونکہ عوام نے اس سے دوری اختیار کی۔ 26 نومبر کو وزیر اعلیٰ کے پی نے ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو تنہا چھوڑ دیا اور غائب ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے کارکن یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سخت سردی کے موسم میں انہیں کیوں اکیلا چھوڑا گیا۔”
وفاقی وزیر امور کشمیر نے کہا کہ کے پی حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت پورا مالیاتی حصہ دیا گیا ہے اور فاٹا کے انضمام کے بعد اس کی ترقی اب کے پی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
امیرمقام کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2017 میں خوازہ خیلہ-بشام چار لین ایکسپریس وے کی منظوری دی تھی جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے منظور کیا ہے اور یہ منصوبہ 137 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہو گا۔