حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات: کیا کوئی راستہ نکلے گا؟
پہلے اجلاس کے اعلامیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات کا پہلا دور خوشگوار ماحول میں ہوا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور 2 جنوری بروز جمعرات کو ہو گا جس میں تحریک انصاف اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی۔
22 دسمبر کو پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی تجویز پر قومی اسمبلی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کیلئے 9 رکنی حکومتی اتحادی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
23 دسمبر کو سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں دونوں کمیٹیوں کے درمیان پہلا باضابطہ مذاکراتی دور پارلیمنٹ ہاؤس میں انجام کو پہنچا ہے۔ پہلے اجلاس کے اعلامیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات کا پہلا دور خوشگوار ماحول میں ہوا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور 2 جنوری بروز جمعرات کو ہو گا جس میں تحریک انصاف اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات پر حکومت کا ایک حلقہ سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے جبکہ دوسرا حلقہ غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں شریک پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایوان بالا کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں: "بڑے کھلے دل و دماغ کے ساتھ اچھی توقعات اور ماضی کو ایک طرف رکھ کر ہم پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں۔” جبکہ وزیر برائے دفاع خواجہ محمد آصف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "حالات اور وقت کے جبر سے پی ٹی آئی مذاکرات پر راضی ہو گئی، اس میں خلوص مت ڈھونڈیں۔”
یہ بھی پڑھیں: فیمینزم اور عورت مارچ؛ کیا خواتین کے مسائل گھٹ گئے؟
دوسری طرف پی ٹی آئی بھی مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ سول نافرمانی کی تحریک جیسی دھمکی سے ابھی تک پیچھے نہیں ہوئی۔ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی عمران خان سے ملاقات میں سول نافرمانی پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی جبکہ دوسری جانب پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے جیو نیوز کو بتایا کہ عمران خان بدستور سول نافرمانی تحریک پر بضد ہے۔
اس کنفیوژن میں جو سوال عوامی حلقوں کی جانب سے اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات سے کیا بہتری کا کوئی راستہ نکلے گا یا نہیں۔ دونوں جانب سے مذاکراتی میز پر کیا کچھ آفر کیا جا سکتا ہے۔ ٹی این این نے اس حوالے سے سیاسی امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔
” کیا مذاکرات سے بہتری کا راستہ نکلے گا؟”
دنیا نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور سیاسی امور کے تجزیہ نگار سلمان غنی نے بتایا کہ موجودہ مذاکراتی عمل ایک بڑا بریک تھرو ہے کیوں کہ پاکستان کی سیاست ڈیڈلاک کا شکار تھی جس کے نتیجے میں سیاسی محاذ آرائی بڑھ رہی تھی اور پاکستان کے اندر ایک خلفشار کی سی کیفیت تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ دنوں نہیں بلکہ ہفتوں تک جاری رہے گا: "اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں فوری طور پر عمران خان کو کوئی ریلیف ملے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہو گی البتہ کچھ دیگر معاملات پر اتفاق رائے ضرور ہو سکتا ہے جس سے بہتری کا ایک راستہ نکل سکتا ہے۔”
اے آر وائی نیوز پر پرائم ٹائم شو کرنے والی سینئر صحافی و اینکر پرسن ماریہ میمن نے بتایا کہ موجودہ مذاکراتی عمل سے بہتری کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا کیوں کہ یہ ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے والی صورت حال کی مانند ہے: "مجھے نہیں معلوم کہ حکومتی کمیٹی کے پاس مینڈیٹ کیا ہے؟ مذاکراتی عمل کا کوئی حتمی فیصلہ حکومت نے کرنا ہے یا مقتدرہ نے کرنا ہو گا؟” بقول ان کے پی ٹی آئی کو اپنے معاملات مقتدرہ کے ساتھ صحیح کرنے ہوں گے کیوں کہ مذاکراتی عمل کا ڈائریکٹ فیصلہ یہ ہو گا کہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ آپس میں کیا سیٹلمنٹ کرتے ہیں۔
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی نے بتایا کہ پاکستان میں ملکی حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی: "ہمارے سامنے گزشتہ دو سالوں میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن میں معاملات نتیجہ خیزی کی طرف آتے آتے پھر کسی دوسری سمت میں نکل گئے۔ یہ مذاکراتی عمل کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی پتا چلے گا کہ کوئی مثبت پیش رفت ہو رہی ہے یا نہیں؛ فی الحال پہلے اجلاس کی حد تک تو دونوں فریقین بہت پرامید نظر آئے۔”
” مذاکرات کی میز پر آفر کیا ہو سکتی ہے؟ "
سلمان غنی نے بتایا کہ اگر سیاسی استحکام کی طرف بڑھنا ہے تو مذاکرات کی میز پر بیٹھے فریقین کو ایک دوسرے کو کچھ گارنٹیاں دینا پڑیں گی۔ ان کے نزدیک یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کو یہ گارنٹی دے کہ مڈٹرم الیکشنز ہوں گے؛ آنے والے انتخابات وقت سے ایک یا دو سال پہلے ہوں گے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کو کچھ دینے کا سوال ہے تو اس کے بارے میں سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن ہمیشہ مقتدرہ سے تعلقات رکھتی آئی ہے جس سے اپوزیشن کیلئے سیاسی راستہ نکلتا تھا جبکہ پی ٹی آئی کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف حکومت کو ٹارگٹ کیا بلکہ مقتدرہ پر بھی مسلسل کڑی تنقید کی جس سے وہ بند گلی میں آ کر کھڑی ہو گئی ہے اس لیے ان مذاکرات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو ایک سیاسی کردار ادا کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔
ماریہ میمن کے خیال میں مذاکراتی میز پر پی ٹی آئی سے نظام کے تسلسل اور شہباز سیٹ اپ کو ماننے اور تین سال بعد مڈٹرم الیکشنز کیلئے راضی ہونے کا تقاضا کیا جائے گا: "یہ بہت بڑی رعایت ہو گی اگر پی ٹی آئی فروری 2024 کے الیکشن کی شفافیت کے مطالبے سے پیچھے ہٹتی ہے۔ کیا عمران خان یہ سب کچھ دینے کیلئے تیار ہوں گے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔”
دوسری طرف جہاں پی ٹی آئی کو کچھ دینے کا سوال ہے تو اس کے بارے میں ماریہ میمن نے یہ پیشن گوئی کی کہ حکومت پی ٹی آئی کو کوئی اتنی بڑی سیاسی سپیس نہیں دے سکتی ورنہ ان کی اپنی سیاسی بقا خطرے میں آ جائے گی۔ عمران خان کو ریلیف دے کر یا باہر نکال کر حکومت اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہے گی لہٰذا مذاکرات کی میز پر بیٹھے دونوں فریق ایک دوسرے کو وہ کچھ نہیں دے سکتے جو دونوں کو ایک دوسرے سے درکار ہے۔
ماجد نظامی کے بقول مذاکرات کی میز پر حکومت پی ٹی آئی سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی کا مطالبہ کر سکتی ہے جس کا بالواسطہ فائدہ حکومت کو معاشی استحکام کی صورت میں ملے گا جبکہ دوسری جانب ان مذاکرات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو گرفتاریوں اور مقدمات میں ریلیف مل سکتا ہے۔ ان کے کچھ اسیران رہا ہو سکتے ہیں، البتہ عدالتی مقدمات کیلئے پی ٹی آئی کو اپنی قانونی جنگ خود لڑنا پڑے گی۔
"مقتدرہ سے مذاکرات کی حامی پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات کیلئے کیسے مان گئی؟”
ماریہ میمن کے نزدیک مذاکرات کی میز پر آ کر پی ٹی آئی نے حکومت کو ‘بلف کال’ دیا کیوں کہ حکومت دعویٰ کرتی آئی ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں سے بات چیت نہیں کرتی، وہ تو مقتدرہ سے بات چیت میں دلچسپی رکھتی ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام تھنک ٹینک کے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان کے خیال میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کافی مرتبہ احتجاج اور مظاہرے کرنے کا حربہ آزما چکی ہے جس میں اسے زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس طرح سٹریٹ ایجیٹیشن سے عمران خان جو حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہیں ہو پایا، وہ حکومت پر غالب نہیں ہو پائے اس لیے وہ اب اپنی حکمتِ عملی کو ریویو کر رہے ہیں اور مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں۔
ماجد نظامی کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی آج بھی مقتدرہ سے مذاکرات کی حامی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اختلافات بھی مقتدرہ سے ہوئے تھے لیکن دوسری طرف سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا تو اس لیے پی ٹی آئی نے سیاسی حکومت کے ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ مذاکرات کے اس سارے عمل کے دوران یہ ممکن نہیں کہ سیاسی حکومت مقتدرہ کو آن بورڈ لیے بغیر کوئی فیصلہ کرے۔