سیاست

خیبرپختونخوا کی نو منتخب حکومت کو تین کونسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟

 

حسام الدین

خیبرپختونخوا کی نومنتخب حکومت کو حکمرانی میں تین بڑے چیلیجنز مالی بحران‘ دہشتگردی اور انتظامی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ محکمہ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق خیبرپختونخوا پر اس وقت مجموعی قرضوں کا بوجھ 530 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے تاہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں کیساتھ ہونیوالے معاہدوں کے مطابق صوبے کو آئندہ سالوں میں ملنے والی قرض کا حجم گیارہ سو ارب روپے سے زائد ہے۔

سی ٹی ڈی خیبرپختونخواکے افسرکے مطابق خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقہ شمالی وزیرستان کے شوال میں پہاڑوں کے دامن میں واقع سرحد پر اور بلوچستان کے ژوب کی سرحد پر فینسنگ نہ ہونے کے باعث شدت پسند باآسانی داخل ہو کر دہشتگردانہ کاروائی کرتے ہیں جب ان علاقوں میں فینسنگ ہو جائے تو دہشتگروں کا راستہ بند کیا جا سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر صوبہ بھر میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے جبکہ انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد دہشتگردی کے واقعات جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے باعث سرمایہ کار طبقہ صوبہ بلکہ کچھ افراد ملک ہی چھوڑ چکے ہیں جس کا اثر بھی ملک کی معیشت پر پڑا ہے۔

سینیر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ صوبے کے عوام نے اپنے مسائل کے حل کے قابل صرف تحریک انصاف کو سمجھا ہے اور اب یہ اس جماعت کا حق ہے کہ لوگوں کے مسائل کو حل کرے لیکن یہ مسائل صرف سیاسی کارکن حل نہیں کرسکتے جو نظام ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بنا ہے اس میں موجود سرکاری لوگ کوئی بھی کام بغیر رشوت کے نہیں کرتے۔ بہت کم لوگ ہیں جو لوگوں کا کام اپنا فرض سمجھ کر بروقت کرتے ہیں ایسے میں ان سرکاری اہلکاروں کو نہ صرف عوام کے کام کرنے کا پابند بنانے کا کوئی میکنزم بنانا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے کوئی ایسا سسٹم بھی بنانا ہوگا جس سے یہ کام رشوت اور کرپشن کے بغیر بھی ہوسکیں۔

تحریک انصاف کے گذشتہ ادوار میں بھی کرپشن کا خاتمہ ایک نعرے کی حد تک محدود رہا جس کا سارا فائدہ سرکاری لوگوں نے اٹھایا جنہوں نے عوام سے کام کرنے کے دگنے اور تگنے دام وصول کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں خوشحالی کے لئے وزیراعلی علی امین کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ وہ امن و امان کو بہتر بنائیں گے اور دہشت گردی کو ختم کرینگے لیکن دہشت گردی اور بھتہ خوری کی بدولت زیادہ تر سرمایہ کار اپنا سرمایہ باہر کے صوبوں اور ممالک میں منتقل کرچکے ہیں۔ ان مشکلات پر قابو پانا صوبے اوراس کے فورسز کے بس کی بات نہیں۔ اس لئے جب وزیراعلی وفاقی فورسز کے ساتھ مل کر کوئی پلان نہیں بنائیں گے ایسا ممکن نہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ گرم گرم کھانے کی بجائے ذرا ٹھنڈا کرکے کھائیں اور صوبے کے لوگوں کو درپیش مشکلات حل کریں۔ وزیراعلی کا یہ اعلان بھی اچھا ہے کہ اس صوبے کی معدنیات کو اس وقت تک باہر منتقل نہیں کرنے دیا جائے گا جب تک اس سے صوبے کے عوام کا حق نہ لیا جائے کیونکہ یہ معدنیات نکل رہی ہیں ان کے کاروبار میں پیسہ لگانے والے ارب پتی ہوگئے لیکن صوبے کے حصے میں صرف ان معدنیات کے نکالے جانے کی دھول ہی آئی ہے۔

سینئر صحافی شمیم شاہد نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں مالی بحران کے خاتمے کے لئے وفاق سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ نیشنل فائنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت بہت ادائیگیاں وفاقی حکومت کو خیبرپختونخوا کو کرنی ہے جس میں ہائیڈرل نیٹ پرافٹ، آئل اینڈ گیس کی رائلٹی ہے۔ فارن گرانٹس میں خیبر پختونخوا کو پسماندگی کے حوالے سے، دہشتگردی کی مد میں خاصی رقم ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر وفاق کیساتھ صوبے کے تعلقات بہتر نہ ہو تو صوبے کی حالت گھمبیر ہوگی۔ اگر دیکھا جائے پچھلے دس سالہ حکومت میں صوبہ خیبرپختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ کا شئیر صحیح طریقے سے بلکہ پورا نہ مل سکا۔

شمیم شاہد نے بتایا کہ فاٹا مرجر کے وقت وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ این ایف سی کا ایک فیصد حصہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لئے مختص کیا جائیگا جس میں وفاق اور چاروں صوبوں نے کردار ادا کرنا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت میں یہ عمل نہ ہو سکا۔
انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے لیڈر شپ کو ہاتھ میں لیکر صوبے کو چلانے کی ضرورت ہے جس سے صوبہ بہتری کی جانب گامزن ہوگا۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما لطف رحمان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خیبر پختونخوا سمیت پورا ملک مالی بحران سے دوچار ہے۔ معیشت کو بہتر کرنے کے لئے بہتر جمہوری نظام کی ضرورت ہےجس کے پیچھے عوام کی طاقت ہو تبھی آزادانہ فیصلے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ملک آئی ایم ایف کے شرائط میں جکڑا ہوا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اکثر کہتا ہوں کہ عوام کی طاقت نہیں ہو گی تو جمہوری نظام کمزور ہوگا ادارے کمزرو ہو نگے وہ بہتر فیصلہ نہیں کر پائینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا صوبہ معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہ صوبہ ملک میں پانی اوربجلی فراہم کرتا ہے۔ صوبائی حکومت کو صوبے کی عوام کے لئے بہتر فیصلے کرنے پڑینگے تاکہ مالی بحران کا مسلہ حل ہو سکے۔

سینئر صحافی عرفان خان نے بتایا کہ صوبے کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ وفاق سے خیبر پختونخوا کو بقایاجات کی مد میں چھ سو ارب روپے سے زائد عدم ادائیگی کی وجہ سے مشکالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے دوران خیبر پختونخوا بالخصوص جنوبی اضلاع مسلح تنظیوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ صوبے میں تحریک انصاف سنی اتحاد کونسل کی صورت میں قائم ہونیوالی حکومت پر ماضی میں بھی الزامات عائد کئے جا تے رہے ہیں کہ وہ ان مسلح تنظیموں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے اسی جماعت نے اپنی گزشتہ دور میں ہزاروں کی تعداد میں مسلح تنظیموں کے کارکنوں کو خیبر پختونخوا میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button