سیاست

حیدرآباد؛ خواتین ووٹرز کن ترجیحات کی بنیاد پر ووٹ دیں گی؟

ثوبیہ سلیم 

حیدر آباد پاکستان کا پانچواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ انتخابی سیاست کے حوالے سے بھی حیدر آباد اپنی مخصوص شناخت رکھتا ہے. اس شہر کی آبادی میڈل اور ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتی ہے. تمام امیدواروں اور جماعتوں کے اپنے اپنے منشور کے اعلان کے بعد ملک کے دیگر شہروں کی طرح حیدرآباد میں انتخابی گہماگہمی ہر سو نظر آنا شروع ہو گئی ہے جس میں خواتین بھی سرگرم اور متحرک ہو رہی ہیں.

الیکشن کمیشن کے جاری اعداد و شمار کے مطابق حیدرآباد میں خواتین رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد 551,167 ہے جو ٪45.78 بنتی ہے. خواتین اکثریت کی بات کی جائے تو یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مرد حضرات کی سیاسی ترجیحات کی بنیادوں پر ہی اپنا ووٹ دیتی ہیں. لیکن سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان اور خواتین کا موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی کے بڑھتے اشاریہ اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے. 2024 کے انتخابات میں یہاں کی خواتین کی اپنی ترجیحات ہیں اور انہی بنیادوں پر وہ ووٹ کاسٹ کرنے کی خواں ہیں. ہم نے اسی سلسلے میں حیدر آباد کی خواتین ووٹرز سے بات کی اور ان کی ترجیحات جانی.

صحت کی سہولیات کے لیے ووٹ
نبیلہ (فرضی نام) پیش کے اعتبار سے ایک نرس ہیں اور جنرل الیکشن 2024 کے لیے پرجوش ہیں۔ کیونکہ پہلی دفعہ وہ آپنا ووٹ اپنی ترجیحات کی بنیاد پر کاسٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں. ان کے خاندان کا ووٹ بنک ایک دوسری سیاسی جماعت کا ہے اور ماضی میں نبیلہ بھی اس ووٹ بنک کا حصہ تھی، لیکن ٢٠٢٤ کے انتخابات میں ان کا ووٹ اس امیدوار کے لیے ہوگا جو اپنے منشور میں عوامی صحت کو ترجیحی بنیاد پر بہتر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو.

ماضی کی تحریکوں میں خواتین کا کردار
جب خواتین میں سیاسی دلچسپی اور شعور کی بات کی جاتی ہے تو یہ بھی عام تاثر دیکھنے میں ملتا ہے کہ خواتین سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی نہ ہی انتخابی سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھتی ہیں. لیکن
یہ بھی ابہام پر مبنی ہے کیونکہ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ماضی کی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہو ئی جب خواتین نے اس میں اپنی شرکت داری شامل کی،چاہیے پھر وہ تحریک پاکستان ہو، ١٩٨١ کی ہو دود اودینس کے خلاف خواتین کی تحریک ہو یا آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن ہو، یا پھر 12 فروری 1983 کو ویمن ایکشن فورم اور پاکستان ویمن لائرز ایسوسی ایشن کا ضیا الحق حکومت کی جانب سے جاری قانون شہادت کے خلاف مشترکہ طور پر لاہور میں احتجاج کی کال ہو۔ مارشل لا دور میں ریلیوں پر پابندی عائد تھی اور شہر میں دفعہ 144 نافذ تھا تاہم ان دونوں تنظیموں نے پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے باوجود مظاہرہ کیا اور لاہور ہائی کورٹ پہنچیں جہاں معروف مزاحمتی شاعر حبیب جالب نے اپنی نظم بھی سنائی۔ یہ مارشل لا کے خلاف پہلا عوامی مظاہرہ تھا اور پاکستان کی تاریخ میں یہ دن اہم حیثیت اختیار کر گیا۔ ان تمام تحریکوں کی کامیابی ہو خواتین سے مشروط کیا جاتا ہے.

نقل و حرکت میں آسانی اور آزادی کے لیے ووٹ
نمرہ جامعہ کے تیسرے سال کی طالبہ ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ وہ ایسے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے گی جو حیدرآباد میں پبلک ٹرانسپورٹ اور بالخصوص خواتین کی موبیلزیشن یعنی نقل وحرکت کے مسائل کو ترجیح بنیاد پر اپنے ایجنڈے کا نہ صرف حصہ بناۓ بلکہ اسے حل بھی کریں. وضع رہے کہ حیدرآباد میں پبلک ٹرانسپورٹ اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور شہر میں چند بسس اور سوزوکی مخصوص علاقوں اور روٹ ہر چلتی نظر آتی ہیں.

خصوصی سبسڈی کے لیے ووٹ
عائشہ آنلائن بزنس کرتی ہیں اور ان کی ترجیحی وہ پاڑٹی ہو گی جو انتخابات جیتنے کے بعد ہوم بیسڈ آنلائن خواتین بزنس اونرز کے لیے خصوصی لون، سبسیڈی اور مواقع فراہم کرنے کی کوشش کریں. جیسے جیسے آنلائن شوپنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے ویسے آنلائن اور ہوم بیسڈ بزنس بھی بڑھ رہے ہیں اور اس میں خواتین کا اچھا خاصا حصہ ہے جو نہ صرف گھر بیٹھے مالی خودمختاری کو یقینی بنا رہی ہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لا رہی ہیں. .

مقامی اور قبائلی خواتین کی حکومت میں نمایندگی کے لیے ووٹ
سمرین خان غوری ایک سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور کمیونٹی بیسڈ اورگنیزیشن شیلٹر پاٹیسیپتری کی بانی ہیں. ان کا کہنا ہے کہ وہ 2024 میں اس پارٹی کو ووٹ دیں گی جو مقامی اور قبائلی خواتین کے کردار کو فیصلہ سازی کے عمل میں یقینی بنائے. وہ سمجھتی ہیں کہ یہ وہ اہم وقت ہے جب پورے ملک میں سیاسی گہما گہمی ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی متحرک نظر آتی ہے تو خواتین کی حیثیت کو صرف اعدادی ووٹر کی طرح شمار نہ کیا جائے بلکہ انہیں انتخابی سیاست کے عمل میں بھی ان کی آبادی کی شرح کے حساب سے مواقع دیئے جائیں. تا کہ بشمول قانون سازی ہو سکے.

تعلیم کے لئے ووٹ
"میرا ووٹ تعلیم کے لئے ہوگا. میں اس پارٹی کو ووٹ دویں گی جو سرکاری تعلیمی نظام کو حقیقی طور پر بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہو اور صرف داوے اور باتیں نہ کریے.” مہوش ایک سرکاری اسکول ٹیچر ہیں اور وہ اپنا ووٹ اپنے شاگردوں کے بہتر مستقبل کے لئے کاسٹ کرنے کے لیے پرعظم ہیں لیکن ساتھ ہی کچھ مایوس بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہتر تعلیم روایتی طور پر ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ تو ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں.

دیہاڑی دار طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے ووٹ

زینب اپنا ووٹ اس امیدوار کو دینا چاہیں گی جو دیہاڑی دار طبقہ کے لیے کچھ ترجیحی بنیادوں پر کر سکے. وہ ایک کوٹیج فیکٹری میں ڈیلی ویجار ہیں. "بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب اچھی آمدنی والوں کا گزرا مشکل ہو رہا ہے تو سوچے ہمارا کیا حال ہوگا؟ بچوں کو تعلیم دلوانا تو ہمارے لئے نہ ممکن بن گیا ہے، دو وقت کی روٹی میسر ہو جائے وہ ہی بڑی بات بن گئی ہے اب”

حیدرآباد کی خواتین کے عزم کو دیکھ کر انگریزی کا مشہور قول اپنی عملی عکاسی کرتا ہوا نظر آرہا ہے "پرسنل از پولیٹیکل” حیدر آباد کی خواتین آبادی اپنے ہر مسلے کا حل ووٹ ڈالنے کو ہی تصور کر رہی ہیں اور 8 فروری کو ووٹ ڈالنے کے لئے سرگرم ہیں اب دیکھنا یہ ہیں کہ اگر حیدر آباد کی خواتین اپنی ان ترجیحات کی بنیادوں پر ووٹ کاسٹ کرتی ہیں تو کیا کوئی امیدوار اور پاڑٹی ان پر پورا اتر پاتی ہے یا نہیں اور اگر اتر پاتی ہے تو اگلے عام انتخابات میں حیدرآباد کا نقشہ ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے مثالی ہوگا.

نوٹ۔ یہ سٹوری ٹی این این اور تھامسن فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button