سیاست

معاشرتی دھتکار نے خواجہ سراوں سے ووٹ کا حق بھی چھین لیا

کامران علی شاہ

پشاور کے رہائشی 36 سالہ خاتون خواجہ سرا ء آرزو خان نے کبھی کسی الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالا ہے۔ آرزو خان خیبر پختونخوا کے خواجہ سراوں کے ایک دھڑے کی صدر ہے اور  انکی فلاح وبہبود کے لئے منزل فاونڈیشن کے نام سے فلاحی ادارہ بھی چلارہی ہے۔ انتخابات میں خواجہ سراوں کے ووٹ ڈالنے کے لئے بہتر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے آرزوخان  حکومت ،الیکشن کمیشن ،سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے نالاں نظر آتی ہے۔

آرزوخان کہتی ہے خواجہ سراوں کے ووٹ پولنگ کے لئے خاص انتظام تو درکنار الیکشن پالیسی میں ہماری کمیونٹی کی آگاہی کے لئے نہ کوئی سیشن ہے نہ پراجیکٹ اور نہ ہی ہمیں اس میں شامل کیا گیا ہے۔ ہماری کمیونٹی کو پتہ ہی نہیں کہ ووٹ کیسے اور کہاں پول کیا جاتا ہے جبکہ میرے پاس نہ تو فنڈز ہیں اور نہ ہی سیکورٹی کا کوئی انتظام جس کی وجہ سے خواجہ سراوں کی بڑی تعداد اپنے حقوق سے بےخبر ہیں۔

آرزو خان کا ماننا ہے کہ اپنے حقوق سے آگاہی اور ووٹ کی اہمیت سے خواجہ سراوں کوآگاہ کرنے کے لئے حکومت ایک محفوظ جگہ مختص کرے جس میں خواجہ سراوں کو آئسولیشن سے نکال کر بہتر ماحول فراہم کیا جائے تب ہی وہ سیاسی نمائندوں کے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔

گزشتہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے آرزوخان نے بتایا کہ میری طرح کسی بھی خواجہ سراء نے ووٹ نہیں ڈالا جس کی وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو خواجہ سراء لوگوں کے ڈر سے ساری زندگی الگ تھلگ رہتے ہیں ،دوسری اہم وجہ خوف ہے جو ہر خواجہ سراء باہر جانے میں محسوس کرتا ہے۔ اگر ہماری کمیونٹی کے لوگ ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشن چلے بھی جائیں تو انکو وہ عزت نہیں دی جاتی جو ایک عام شہری کو دی جارہی ہوتی ہے۔

آرزو خان کہتی ہے پولنگ سٹیشن میں خواجہ سراوں کی تلاشی مرد پولیس اہلکار لیتے ہیں جو انہیں ناپسند ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر خواجہ سراء کو ووٹ رجسٹریشن کا بھی پتہ نہیں ہوتا کہ انکا ووٹ کہا ں پر رجسٹرڈ ہے جس کی وجہ سے  انہیں کبھی خواتین تو کبھی مردوں کے پولنگ سٹیشن بھجوایا جاتا ہے۔

الیکشن کے حوالے سے خواجہ سراوں کے مسائل پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آرزو خان کا کہنا تھا کہ ہماری الگ پہچان کے لئے ایکس کارڈ بنانا اور اس پر خواجہ سراوں کو قائل کرنا بھی بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

آرزو خان کہتی ہے نادرا کے فوکل پرسن کے مطابق صوبہ بھر میں 32خواجہ سراوں نے ایکس کارڈ حاصل کیا۔ ایکس کارڈ نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ والد ٹرانسجینڈر بچے کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایکس کارڈ میں انکا نام بطور والد لکھے۔ خواجہ سراء بھی وراثت سے محرومی کی ڈر سے ایکس کارڈ نہیں بنا رہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کئی اہم حقوق مثلاً بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ،صحت کارڈ اور اس طرح کے دیگر سہولیات حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

پشاور سے ہی تعلق رکھنے والی خاتون خواجہ سراء ماہی گل بھی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ ماہی گل کےلئے بھی ایکس کارڈ بنانا بڑا مسئلہ ہے۔ سیاسیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ماہی گل کہتی ہے میں اسلئے ایکس کارڈ نہیں بنا رہی ہوں کہ اس کی وجہ سے میرے گھر جانے پر پابندی لگ جائے گی اور مجھے وراثت سے بھی محروم کردیا جائے گا۔ اسلئے میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایکس کارڈ سے مجھے میری صنف کے مطابق کئی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں نہیں بنا رہی ہوں کہ میں اپنے گھر سے نکالی جاوں گی۔

ماہی گل کہتی ہے سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے تو ویسے بھی آزادی سے گھوم پھرنا مشکل ہے اگر ایسے میں الیکشن میں حصہ لیں یا ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشن کا رخ کرلیں تو کیا ہوگا۔ کم از کم میں تو ووٹ کے لئے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔

آرزو خان کہتی ہے بطور انسان اور پاکستانی خواجہ سراء اگر ووٹ ڈال سکتا ہے تو وہ الیکشن بھی لڑ سکتا ہے لیکن یہاں ہمیں کوئی اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہونے دیتا۔ الیکشن لڑنا تو بڑی بات ہے انہی وجوہات کی بناء پر اب تک پارلیمنٹ میں ہمارے لئے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ نہ توسیاسی جماعتیں ہمیں ٹکٹ دیتی ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے  اس سلسلے میں ہمارے لئے کوئی آواز اُٹھائی ہے۔

الیکشن میں جیسے مرد و خواتین کے لئے الگ پولنگ سٹیشن ہوتا ہے۔ آرزوخان کہتی ہے ہمارے لئے بھی الگ پولنگ سٹیشن ہونا چاہئے جس کا عملہ بھی خواجہ سراوں پر مشتمل ہو لیکن یہاں تو ہمارے لئے الگ پولنگ بوتھ بھی نہیں ہے اگر الگ پولنگ بوتھ یا پولنگ سٹیشن قائم ہوجائے تو ہی ہماری کمیونٹی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتی ہے۔

خواجہ سراوں کے مسائل کو پارلیمنٹ کے فلور پر صحیح طریقے سے کوئی خواجہ سراء ہی اجاگر کرسکتی ہے اسلئے آرزوخان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ خواجہ سراوں کو اگر کو ئی سیاسی جماعت ٹکٹ نہیں دیتی یا سیکورٹی کی وجہ سے ٹرانسجینڈر انتخاب نہیں لڑ سکتا تو خواتین کی طرح ہمیں  بھی تعداد کے لحاظ سے مخصوص نشستیں دی جائیں تاکہ ہم اپنی آواز ایوان تک پہنچاسکیں۔

محروم طبقات کو انتخابات میں بہترین سہولیات فراہم کرنے کےحوالے سے الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا شمشاد خان کہتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ الیکشن میں شامل ہو۔ جس کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔ جہاں تک خواجہ سراوں کی بات ہے تو انہیں بھی اس عمل شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ بھی دیگر شہریوں کی طرح ووٹ کے ذریعے سیاسی نمائندوں کا انتخاب کرسکے۔

شمشاد خان کہتے ہیں کہ انتخابی قواعد کے مطابق خواتین اور مردوں کے لئے ووٹ پول کرنے کا الگ انتظام موجود ہے۔ ووٹر لسٹ کے مطابق کوئی بھی خاتون یا مرد متعلقہ پولنگ سٹیشن میں ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔ اسی طرح ووٹر لسٹ میں انداراج کے مطابق مرد خواجہ سراء مردوں کے پولنگ سٹیشن میں جبکہ خاتوں خواجہ سراء خواتین کے پولنگ سٹیشنز میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا کہتے ہیں تاحال خواجہ سراوں کے لئے کوئی علیحدہ پولنگ سٹیشن یا پولنگ بوتھ  نہیں ہے جس کی وجہ خواجہ سراوں کی تعداد اورمحصوص شناختی کارڈ (ایکس کارڈ) کا نہ ہونا ہے۔ تاہم الیکشن عملے کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ محروم طبقات کا حصوصی خیال رکھا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔

ووٹ کے اندارج کے حوالے سے الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا شمشاد خان نے بتایا کہ ووٹ کے اندارج کا جو طریقہ کار قومی شناختی کارڈ رکھنے والے ایک عام شہری کیلئے ہے۔ اسی طریقے سے خواجہ سراء بھی ووٹ کا اندارج کرسکتا ہے تاہم خاتون یا مرد خواجہ سراء کی تفریق کے لئے محکمہ سوشل ویلفیئر ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے جس کی بنیاد مرد خواجہ سراء کی مردوں کی ووٹر لسٹ میں جبکہ خاتون خواجہ سراء کی خواتین کی ووٹر لسٹ میں اندارج کیا جاتا ہے۔

ترجمان الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا سہیل احمد سے جب خواجہ سراوں کی سیکورٹی کے حوالے سے آگاہی سیشن کرانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ "خواجہ سراوں کے لئے  کوئی علیحدہ آگاہی سیشن نہیں ہوتا۔ ووٹرز ایجوکیشن کے تحت الیکشن کمیشن سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں متعلقہ اداروں کے تعاون سے پروگرامات کا انعقاد کرتی ہے۔ پولنگ عملہ اور سیکورٹی اداروں کے ٹریننگ کے دوران انہیں خواجہ سراوں اور دوسرے محروم طبقات اچھے طریقے سے پیش آنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ان تمام شیشنز کے لئے کوئی مخصوص بجٹ نہیں ہوتا یہ الیکشن کمیشن کےلئے روٹین کا عمل ہے”۔

ایکس کارڈ کے حصول، ووٹ کے اندارج اور انتخابی عمل میں بطورووٹر یا امیدوار شرکت کے حوالے سے آرزوخان کی جانب  انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ہدف تنقید بنانے پر جب ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے ریجنل کوارڈنیٹر شاہد محمود سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جس طرح دیگر شہریوں کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں اسی طرح خواجہ سراوں کے حقوق ان پر تشدد کے واقعات میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کا بھرپور ساتھ دیا جاتا ہے۔

شاہد محمود کے مطابق ہم انسانی حقوق کے حوالے سے ہر پروگرام میں محروم طبقات اور خصوصا ًخواجہ سراو کو ضرور بلاتے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنی مشکلات ہمارے ساتھ شیئرکرسکیں  اور ہماری تنظیم اس کا ٹھوس اور پائیدار حل نکال سکے۔

شاہد محمود کہتے ہیں خواجہ سراوں کے ووٹ کا اندارج ،الیکشن لڑنے اور ایکس کارڈ کے حصول کے لئے ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے ہر فورم پر آواز اُٹھائی اور آئندہ بھی اُٹھاتے رہیں گے۔

الیکشن میں خواجہ سراوں کی شمولیت کے حوالے سے فلاحی تنظیم” د حوا لور”کی  خورشید بانو کہتی ہے دو تین سالوں سے الیکشن کمیشن اور نادرا کے ساتھ مل کر خواجہ سراوں کے شناختی کارڈ اور ووٹ رجسٹریشن پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم ایس کارڈ بنانے میں مشکلات کا سامنا تھا جس کے لئے حل یہ نکالا گیا ہے کہ خواجہ سراوں کے گوروں کو رجسٹرڈ کرایا جائے تاکہ انکے نام سے دیگر خواجہ سراوں کا ایکس کارڈ بن سکے۔

خورشید بانو نے بتایا کہ خواجہ سراوں کو ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کی آگاہی دینے کیلئے الیکشن کمیشن نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں فلاحی تنظیمیں ،محکمہ سوشل ویلفئیر اور خواجہ سراوں کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ انہیں اس جمہوری عمل سے روشناس کرایا جاسکے۔ یہ بھی کوشش کی جاری ہے کہ پولنگ سٹیشن میں انکے لئے الگ انتظام ہو۔ گزشتہ انتخابات میں انکے لئے الگ لائن مختص کی گئی تھی الیکشن کمیشن کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے الگ پولنگ سٹیشن یا پولنگ بوتھ کا انتظام نہیں ہے۔

خورشید بانو کا کہنا ہے کہ خواجہ سراوں کے اکثر شناختی کارڈ مردوں کے نام  سے ہیں  جبکہ ایکس کارڈ کی کمی کی وجہ سے الیکشن میں الگ انتطام کا مسئلہ درپیش ہے۔ اب تک صوبہ بھر میں صرف 50 سے 58 خواجہ سرا ایکس کارڈ ہولڈر ہیں۔ بہت جلد انکے ڈیروں پرجاکر آگاہی سیشن کیا جائے گا جس میں انہیں ایکس کارڈ کی اہمیت سے آگاہی اور نادرا کا طریقہ کار سیکھایا جائے گا تاہم اپنےحقوق سے آگاہی کے لئے خواجہ سراوں کو بھی متحد ہونا پڑے گا۔

سماجی کارکن اور ہیومن رایٹ ایکٹیویسٹ تیمور کمال نے کہا کہ خواجہ سراء ایک کمزور طبقہ ہے۔ انہیں دیگر اصناف کی طرح سہولیات حاصل  ہونی چاہئیے۔ خواجہ سراءکو نہ صرف ووٹ کا حق بلکہ الیکشن لڑنے کا بھی حق دیا جائے جس طرح قومی وصوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے 33فیصد کوٹہ ریزرو سیٹس کی شکل میں مختص ہے۔ اسی طرح خواجہ سراوں کے لئے بھی ریزرو سیٹس رکھی جائیں۔  اسی طرح خواتین کے لئے تمام سیاسی جماعتوں میں 5فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے ۔سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ خواجہ سراوں کے لئے بھی جنرل سیٹوں پر کوٹہ رکھا جائے، یا ریزرو سیٹس پر سیاسی جماعت کی جانب خواجہ سراوں کے لئے نشستیں مختص کئے جائے۔

خواجہ سراوں کو الیکشن میں شامل کرنے کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور کا کہنا ہے کہ ہم ایکسلسیو کی بجائے انکلویسیو الیکشن پر یقین رکھتے ہیں جس میں تمام لوگ شریک ہوں۔ ثمر ہارون بلور کہتی ہیں کہ ہمارے انتخابی منشور میں خواجہ سراوں کی الیکشن میں شمولیت کے حوالے علیحدہ بات موجود ہے جس میں انکوالیکشن کے دوران  آسانیاں دینے کی بات کی گئی۔ یہ مطالبہ کہ خواجہ سرا بھی خواتین کی طرح مخصوص نشستوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جس پر پارٹی کے اندر کوئی بحث نہیں ہوئی ہے لہذا کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف  کے سینئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ خواجہ سراء بھی انسان ہیں۔ انکو بھی یہ حق حاصل ہے کہ انہیں انتخابات میں ووٹ کاسٹنگ کے دوران آسانیاں فراہم کی جائیں۔ جس ضلع میں انکی تعداد زیادہ ہے تو وہاں پر انکے لئے ایک پولنگ سٹیشن مختص کیا جائے اور حکومت پولنگ سٹیشن تک لانے کے لئے خواجہ سراوں کی ٹرانسپورٹ کو بھی سپانسر کرے۔

خصوصی نشست پر رائے دیتے ہوئے شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ریزرو سیٹ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس میں اس کمیونٹی کے کسی ایک فرد کی اجارہ داری قائم ہونے کا خدشہ ہے۔ لہذا انکے لئے ایک سیٹ کا اعلان کیا جائے جس پر الیکشن ہو اور ایک فرد خواجہ سراوں کی جانب سے منتخب ہو کر اسمبلی میں جائے تاکہ اپنے حقوق کے لئے خود پارلیمنٹ میں آواز بلند کرسکے۔

انتخابات میں خواجہ سراوں کے لئے الگ انتظام جس میں پولنگ بوتھ یا پولنگ سٹیشن اور خواجہ سراوں کے عملے کی تعیناتی سمیت مخصوص نشستوں کے حصول کے لئے ایکس کارڈ پر تعداد اہم مسئلہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس خیبرپختونخوا خواجہ سراوں کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد موجود نہیں ہے۔ ادارہ شماریات کی 2017 مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواجہ سراوں کی تعداد 1999 دیکھی گئی ہے جبکہ 2023 سروے کی تاحال مکمل کمپائلیشن نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے خواجہ سراوں سے متعلق تازہ اعداد و شمار تاحال جاری نہیں کئے گئے ہیں۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button