سیاست

کیا سیاسی جماعتوں کے پیش کردہ انتخابی منشور عملی ہو جائیں گے؟

 

رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور پیش کئے ہیں اور ان میں عوام کو بہترین روزگار، بجلی کی بلوں کی قیمتوں میں کمی اور ملک کے خراب معاشی حالات بہتر بنانے کے وعدے کئے ہیں، مگر معاشی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہی وعدے صرف وعدوں کی حد تک رہ جائیں گے کیونکہ اس وقت پاکستان کو خراب اقتصادی حالات کا سامنا ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان دعوؤں کو پورا کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی پیش نہیں کی ہے۔

ہفتے کے روز پاکستان مسلم لیگ ن نے ‘پاکستان کو نواز دو’ کے ساتھ اپنی 2024-2029 انتخابی منشور پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد 1 کروڑ نوکریاں دینے اور بجلی کے بلوں کے میں 20 سے 30 فیصد کمی کر دیں گے۔
دوسری جانب وفاقی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں اعادہ کیا ہے کہ تنخواہیں دگنی کرنے، 300 یونٹ تک مفت بجلی اور نوجوانوں کو نوکریاں دیں گے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس وقت پاکستان کے معاشی حالت کمزور ہے اور ملک چلانے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضے انکے شرائط پر لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے آج بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پشاور میں مقیم صحافی لحاظ علی نے ٹی این این کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل کئے گئے وعدے درحقیقت عوام کی توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے مگر جب اقتدار مل جائے تو وہ اپنے ہی منشور سے انخراف کرتے ہیں۔

لحاظ علی کہتے ہیں ” سیاسی جماعتیں مقبول انتخابی منشور عوام میں پیش کرتی ہے تاکہ عوام انکی طرف راغب ہوسکیں۔ کوئی مذہب کے نام سے اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے اور کوئی پشتونوں کو حقوق دلانے کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن ان کی حکومتیں گزری ہیں مگر یہ سب ہم نے ابھی تک دیکھا نہیں ہے”۔

صحافی لحاظ علی سیاسی جماعتوں کے منشور پر سوال اُٹھا کر کہتے ہیں "عوامی نیشنل پارٹی اس پر زور دیتی ہے کہ ہم ہر ضلع میں یونیورسٹی بنائیں مگر کیا موجودہ یونیورسٹیوں کے اقتصادی حالات ٹھیک ہے، صوبے کے پاس اتنے وسائل ہیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کہہ رہی ہے کہ بجلی فری دینگے تو کیا یہ آئی ایم ایف کے معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں ہوگی”؟
لحاظ علی کہتے ہیں خیال نہیں کہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر اپنے منشور پر من و عن عمل کرینگے بلکہ انہوں نے اسے زمینی حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔
ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر ذلاکت خان کا بھی ماننا ہے کہ ملک کے بڑے سیاسی جماعتوں کے منشور میں ایسے نقاط موجود نہیں جس میں معیشت کی بحالی، انڈسٹرئیلائزائیشن کی ترقی اور معاشی پیداوار بڑھانے جیسے منصوبے شامل ہو۔
ڈاکٹر ذلاکت خان نے ٹی این این کو بتایا "پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے جتنے بھی نقاط اپنے منشور میں شامل کئے ہیں اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ سب کے سب قومی خزانے پر بوجھ ہے تو اس میں بے نظیر کارڈ، کسان کاشتکار کارڈ، ہیلتھ کارڈ اور 300 یونٹس کہاں سے لائیں گے”؟

پروفیسر ذلاکت خان کے مطابق سیاسی پارٹیوں کے منشور میں وہ دعوے کئے گئے ہیں جو زمینی حقائق کے برعکس ہیں کیونکہ منشور میں انڈسٹرئیلائزیشن، بجلی کی پیداور اور اکانومی کو بہتر بنانے کے منصوبے شامل نہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان سب مسائل کی ترقی کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ دے دیتے۔

یاد رہے کہ 2018 کے الیکشن سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں 1 کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر دینے اور 200 ارب ڈالر واپس لانے کا وعدہ کیا تھا مگر تجزیہ کاروں کے مطابق ان میں سے کوئی بھی دعویٰ سچا ثابت نہیں ہوا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button