بلاگزلائف سٹائل

کیا آپ اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں؟

 

سندس بہروز                                                                                                                             

میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ ملک میں برے حالات کا رونا روتے ہیں۔ محفلوں میں جب بیٹھتے ہیں تو مہنگائی کی  شکایت کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی انہیں گیس نہ آنے کی شکایت ہوتی ہے اور کبھی بجلی کی شکل دیکھنے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ کبھی پیٹرول مہنگا ہونے پر حکومت کو گالیاں پڑتی ہے تو کبھی آلو پیاز کی قیمتوں سے پریشان ہوتے ہیں۔ بہت آسانی سے لوگ یہ سب کچھ سیاست دانوں کے سر ڈال دیتے ہیں اور صحیح بھی ہے کیونکہ ملک کے سارے اہم فیصلے وہی کرتے ہیں۔ یہاں پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو وہاں عام آدمی کے لیے سبزی لینا محال ہو جاتا ہے۔

مگر کیا ہمارے ملک میں تمام برے حالات کا ذمہ دار سیاست دانوں کو قرار دینا صحیح ہے۔ کیا عام آدمی کی کوئی ذمہ داری نہیں؟

دوسروں کے کندھوں پر سب ڈال کر خود سکون کا سانس لیا جاتا ہے کہ ہم تو اس سے مبرا ہے۔ حالانکہ ہمارے ملک کو مال غنیمت سمجھ کر سب لوٹ رہے ہیں۔ چاہے وہ سیاست دانوں جیسے بڑے لوگ ہو یا اس ملک کا کوئی عام شہری۔آدھا دن بجلی نہیں ہوتی مگر جب آتی ہے تو سیاست دانوں کو کوسنے والا وہی شخص سب سے پہلے بجلی چوری میں ملوث پایا جاتا ہے۔ گیس کی شکل دیکھنے کو عوام ترس جاتی ہے مگر جناب کا جب نزول ہوتا ہے تو پاکستان کی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونے والا وہی محب وطن میٹر ریڈر کو کچھ دے دلا کر بل میں کم یونٹس لکھ لیتا ہے۔ دکاندار اپنی قیمت پر سبزی بیچتا ہے رکشے والا اپنی مرضی کا کرایہ لیتا ہے۔ یعنی کہ اس ملک کے نظام کو خراب کرنے میں سیاستدان جیسے ذمہ دار آدمی سے لے کر رکشے والے جیسے عام آدمی تک کا ہاتھ ہے۔ پھر ہم کیوں سارا بوجھ ان پر ڈال دیتے ہیں۔

شاید گناہ قبول کرنے کے لیے ایک مضبوط دل ہونا چاہیے اور احساس کرنے والا بھی کیونکہ گناہ قبول کرنا ایک مشکل عمل ہے اور ہم جیسی آسان پرست قوم کہاں مشکل راستہ اپناتی ہیں۔ ہم لوگوں کو تو احساس ہی نہیں ہے کہ ہم کچھ غلط کر رہے ہیں اور جب تک احساس نہیں ہوگا ہم کیسے تزکیہ نفس کریں گے؟

آدھی سے زیادہ عوام بجلی چوری کر رہے ہیں گیس چوری کر رہے ہیں اور جہاں پر ان کا بس چلتا ہے۔ وہاں ڈنڈی مارتے ہیں اور پھر گلہ کرتے ہیں کہ اس ملک کے حالات ٹھیک نہیں۔ استاد صحیح سے پڑھا نہیں رہا، ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک پر زیادہ توجہ دے رہا ہے، پولیس والے کو تنخواہ سے زیادہ اوپر کی کمائی کی فکر ہے۔ سڑکیں بنانے والے پیسے زیادہ لے کر خراب مٹیریل استعمال کرتے ہیں، اور اس طرح سے اور کئی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو اس ملک کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں مگر ہم سارا بوجھ سیاست دانوں کے کندھوں پر ڈال کر خود سکون سے سو جاتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے ملک کے سیاستدان تمام تر کرپشن سے پاک ہے مگر جو ہمارے فرائض ہیں ہم وہ بھی تو صحیح سے نہیں نبھا رہے۔ ہمیں اس ملک سے صرف حقوق چاہیے فرائض کی فکر کسی کو نہیں۔

اگر سیاست دان اس ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے تو وفادار ہم بھی نہیں۔ کیا آپ مخلص ہیں؟

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی  ہیں اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button