عام انتخابات میں خواتین جنرل نشستوں پر جیت کی سیٹوں سے محروم
کامران علی شاہ
صوبیہ شاہد کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے جو پشاور کے تین جنرل نشستوں سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ ان تین حلقوں میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 29، این اے 31 اور صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے 76 شامل ہے۔
صوبیہ شاہد کہتی ہے گزشتہ دس سال سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے ساتھ سیاسی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ انہیں الیکشن ایکٹ 2017 میں خواتین کو جنرل نشستوں پر 5 فیصد نمائندگی کے قانون کے بعد تین جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ صوبیہ شاہد نے بتایا کہ میں اس فیصلے پر پارٹی قیادت کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور اپنے رہائشی حلقہ سمیت دو دیگر حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ جاری کیا۔
جب صوبیہ شاہد سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس تاثر کو مانتی ہے کہ صرف الیکشن ایکٹ کے قوانین کے لئے سیاسی جماعتیں خواتین کو ایسے حلقوں کے ٹکٹ جاری کرتی ہیں جہاں پارٹی پوزیشن کمزور ہوں اور وہاں سے مرد امیدواروں کامیابی ملنے کی امید نہ ہوں۔ اس کے جواب میں صوبیہ شاہد نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ مرد امیدواروں کے مقابلے میں خواتین امیدواروں کوکمزور پوزیشن کی نشستیں دی جاتی ہیں۔ یہ امیدوار کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے حلقے میں کسطرح انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ میں اپنے انتخاب کے حلقوں میں بھرپور مہم چلارہی ہوں اور عوام کو یہ باور کرارہی ہوں کہ کامیابی کی صورت میں انکی خدمت میری اولین ترجیح ہوگی۔ صوبیہ شاہد نے کہا۔
خواتین کسی بھی میدان میں مردوں سے کم نہیں
صوبیہ شاہد کہتی ہے کہ ہم کسی بھی میدان میں مردوں سے کم نہیں اگر خواتین سول ایڈمنسٹرین چلا سکتی ہیں،صحت ،تعلیم اور دیگر شعبوں میں بہتر انداز میں خدمات انجام دے سکتی ہیں تو سیاست میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہونگی۔
صوبیہ شاہد نے بتایا کہ ہمارا نعرہ ہے کہ اب پاکستان کو مردوں کے شانہ بشانہ ہم نے سنبھالنا ہے الیکشن ایکٹ 2017نے ہمیں یہ طاقت دی ہے کہ شعبہ سیاست میں آگے بڑھ کر قوم و ملک کی خدمت کریں۔ صوبیہ شاہد نے الیکشن ایکٹ کے اس شق کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوگا اور انکے مسائل پر بات کرنے کے لئے تواناں آواز میسر آئے گی۔
خواتین کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ایسی خواتین جو اپنے مسائل مرد نمائندہ کو بیان نہیں کرسکتی خواتین رہنما انکے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہونگی جو بے دھڑک انکو اپنے مسائل سےآگاہ کرسکیں گی۔
کونسی سیاسی جماعت نے کس حلقہ سے خواتین کو ٹکٹ دیا ہے
صوبیہ شاہد کی طرح پاکستان مسلم لیگ نے چارسدہ سے ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر خاتون امیدوار فرخ خان کو ٹکٹ دیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر شائستہ ہری پور سے صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ زیبا کو بھی ٹانک سے جنرل نشست کی ٹکٹ دی گئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے خیبر پختونخوا میں شازیہ طہماس کو چارسدہ، مہر سلطانہ کو کرک اور فرزانہ شیرین کو بنوں کے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر ٹکٹ دیا ہے۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کے 5 جنرل نشستوں پر اقلیتی کمیونٹی کی ڈاکٹر سویرا پرکاش کو بونیر ،ساجدہ تبسم کو مانسہرہ، شائستہ رضا کو ہری پور ،ڈاکٹر غزالہ عطاء کو صوابی اور انیلہ شہزاد کو مردان سے ٹکٹیں دی گئی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے قومی اسمبلی کی ایک جنرل نشست پر چترال سے خدیجہ بی بی کو اور صوبائی اسمبلی کی ایک جنرل نشست پر ثمر ہارون بلور کو پشاور سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔
مذہبی جماعتوں میں جمیعت علمائے اسلام نے خیبر پختونخوا سے کسی بھی خاتون کو قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر ٹکٹ نہیں دیا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر صائمہ بی بی کو مانسہرہ، عائشہ حمید کو ابیٹ آباد اور ہری پور سے رقیہ بی بی کو ٹکٹیں دی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی جنرل سیٹوں پر جماعت اسلامی نے بھی کسی خاتون امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کے 4 جنرل نشستوں پر کوہاٹ سے نازیہ بی بی ،صوفیہ بانو اور ثمینہ جبکہ ڈی آئی خان سے فوزیہ گل کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین نے قومی اسمبلی کی کوہاٹ سے ایک جنرل نشست پر آسیہ خٹک اور صوبائی اسمبلی کے 4 جنرل نشستوں پر اپردیر سے تاج بیگم ،زوریت بی بی ،شانگلہ سے نادیہ شیر اور پشاوری سے سومی کوٹکٹ جاری کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار پارٹی سرٹیفیکٹ اور نشان سے محروم ہونے کے بعد آزاد تصویر کئے جا رہے ہیں تاہم پشاور کے قومی اسمبلی کی ایک جنرل سیٹ پرشاندانہ گلزار اور صوبائی اسمبلی کی ایک جنرل سیٹ پر ثریا بی بی چترال سے الیکشن لڑ رہی ہے۔
الیکشن ایکٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی جنرل 115 نشستوں میں پانچ فیصد کے حساب سے خواتین کی نشستوں کی تعداد 5ا ورقومی اسمبلی کے 45 جنرل نشستوں میں خواتین کی سیٹوں کی تعداد 2 بنتی ہے تاہم کئی بڑی سیاسی جماعتوں نے قومی و صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر خواتین کو وہ نمائندگی نہیں دی ہے یا خانہ پری کے لئے ایک خاتون کو قومی وصوبائی نشستوں کی ایک سے زیادہ تعداد میں ٹکٹیں دی ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کا نقطہ نظر
خیبرپختونخوا سے خواتین کو قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر ٹکٹ نہ دینے کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور رکن پارلیمانی بورڈ مولانا عطاء الحق درویش سے پوچھا گیا تو انکو کہنا تھا کہ "الیکشن ایکٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں پرپورے پاکستان میں خواتین کو نمائندگی دینے کا کہا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام نے صوبہ سندھ اور پنجاب میں خواتین کو ٹکٹیں جاری کی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر خیبر پختونخوا سے تین خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں ۔”
خواتین کے لئے کمزور پوزیشن کی جنرل نشستیں
قومی و صوبائی اسمبلی کے جنرل نشستوں پر خواتین کو مناسب نمائندگی نہ دینے کے حوالے پشاور کے سینئر صحافی و تجزیہ کار کاشف الدین سید کہتے ہیں "الیکشن ایکٹ 2017 میں خواتین کو جنرل نشستوں پر نمائندگی دینے کے لئے 5فیصد ٹکٹیں دینے کا جو قانون بنایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی کو پارلیمنٹ کے اندر یقینی بنائی جائے لیکن بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ وہ صرف خانہ پُری کے لئے ان نشستوں پر خواتین کو برائے نام ٹکٹ دے دیتے ہیں جہاں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ یہ نشست جیت نہیں سکتے۔ یہ ایکسرسائز تمام سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں جس میں ہماری مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں۔محض الیکشن ایکٹ پر عمل درآمد کے لئے یہ طریقہ ڈھونڈ نکالا گیا ہے حالانکہ اگر کھل کر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت اور موقعہ دیا جائے تو کئی باصلاحیت خواتین اس میدان میں بھی اپنے آپ کو منوا سکتی ہے ۔”
"خیبر پختونخوا کی سطح پر اگر دیکھا جائے تو صر ف ایک سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی ہے جس نے اس ایکٹ سے بہت پہلے جنرل نشست پر بیگم نسیم ولی خان کو چارسدہ سے ٹکٹ دیا تھا جس پر وہ کامیاب بھی ہوگئی تھی۔ اسطرح ثمر ہارون بلور کو 2018 میں اس کے شوہر ہارون بلور کی شہادت کے بعد اسی حلقے سے ٹکٹ جاری کیا گیا تھا جس پر وہ کامیاب ہوکر ممبر صوبائی اسمبلی بنی تھی۔ اس بار پشاور سے صوبائی اسمبلی کے ایک اور نشست پر شگفتہ ملک کو بھی ٹکٹ دیا گیا تھا لیکن وہ واپس لیا گیا ہے۔ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی نے چترال سے ایک خاتون کو ٹکٹ دیا تھا جو وہ جیت بھی چکی تھی۔ اس دفعہ بونیر سے ہندو کمیونٹی کے ایک خاتون سویرا پرکاش کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ یہ کچھ واضح ایسی سیٹیں ہیں جس پر اگر توڑی سی کوشش کی جائے تو یہ نشستیں جیتی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور سیاسی جماعت نظر نہیں آرہی ہے کہ انہوں نے کسی ایسی نشست پر خاتون کو ٹکٹ دیا ہو جہاں سے انکے جیتنے کے امکانات واضح ہوں یاوہ سیاسی پارٹی وہاں مقابلے کی پوزیشن میں ہوں ۔”
سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی لسٹ پر اگرنظر دوڑائی جائے توصاف نظر آرہا ہے کہ بہت سے سیاسی جماعتیں کمزور نشستوں پر صرف قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے خواتین کو ٹکٹیں دیتی ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017، عدم پیروی کے نتائج
یہ قانون اصل میں کہاں سے ماخذ ہے اور اس پر پورا نہ اترنے والے سیاسی جماعتوں کے خلاف کیا کاروائی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے سینئر قانون دان فضل شاہ مہمند کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 34 جس میں خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں مساوی نمائندگی دینے کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ اسی آرٹیکل 34 کے تحت الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 206 میں تمام سیاسی جماعتوں کو بھی پابند بنایا گیا ہے کہ انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کے جنرل نشستوں پر کم از کم 5 فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے جائیں گے۔
فضل شاہ مہمند ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ یہ نہ صرف آئین کے آرٹیکل 34 کی پیروی ہے بلکہ اس سے خواتین کو بھی آگے جانے اور اپنے اوپر اعتماد کے ساتھ عوام کے بھرپور خدمت کا موقعہ ملے گا لیکن اگر کوئی سیاسی پارٹی الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 206 پر عمل نہیں کرتی تو انکے خلاف کے خلاف شکایت کی بنیاد پر اسی ایکٹ کے شق 215 کے تحت کاروائی کی جائے گی جس میں پارٹی سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان سے محروم بھی ہوسکتی ہے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ترجمان الیکشن کمیشن سہیل احمد نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 9 میں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے یا کسی حلقہ میں 10 فیصد سے کم ووٹ پول ہونے پر متعلقہ حلقہ میں انتخاب کو نامکمل تصور کرکے دوبارہ الیکشن کرایا جائے گا۔ اسی طرح اس ایکٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا بھی پابندی بنایا گیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے جنرل نشستوں پر خواتین کو کم از کم 5 فیصد ٹکٹیں دیئے جاینگے۔
سہیل احمد نے بتایا کہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی قومی و صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹیں جاری کی گئی تھی اور اس بار بھی عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹیں جاری کی ہیں۔
سہیل احمد نے واضح کیا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 206 پر عمل نہیں کرتی تو اسی ایکٹ کے شق 15 کے تحت شکایت کنندہ کی شکایت پر متعلقہ پارٹی کے خلاف شق 215 کے تحت کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔