بلاگزلائف سٹائل

اس دور میں اکیلی عورت کسی کی نظروں سے محفوظ کیسے رہ سکتی ہے؟

 

حدیبیہ افتخار

کچھ دن پہلے ہماری ایک جاننے والی خاتون کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ خاتون اور ان کا نو سالہ بچہ گھر پر اکیلے ہوتے ہیں۔

خاتون نے گھر پر ایک چھوٹا سا دوکان کھول رکھا ہے جس میں کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ وہ کپڑے بھی بیچتی ہے۔ ان کا گھر نوشہرہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہے اسلئے گاؤں کے لوگ اسی سے اپنے استعمال کی چیزیں خریدتے ہیں جس سے ان کی گھر کا چولہا جلتا ہے۔

خاتون کا شوہر زندہ تھا تو ان کی کوئی خاص جاب نہیں تھی شوہر کی موجودگی میں بھی خاتون اپنے گھر کا خرچ خود چلاتی تھی اور شوہر, بچے کے ساتھ اپنی زندگی خوشی سے گزار رہی تھی۔ شوہر کے انتقال نے تو جیسے ان کی دنیا اجاڑ دی۔ کچھ دن پہلے جس گھر میں خوشی اور سکون تھا آج اس میں ہرطرف غم کے سائے ہیں۔

اگرچہ اس خاتون کے شوہر کی کوئی جاب نہ تھی اور نہ کوئی خاص کماتا تھا لیکن ان کی موجودگی میں خاتون اور ان کا بچہ محفوظ تھے۔ خاتون خود کماتی تھی لیکن شوہر کی موجودگی میں وہ انسان نما بھیڑیوں کی نظروں سے محفوظ تھی۔

شوہر کی انتقال کا غم ایک طرف,اب لوگوں کی نظروں نے اسے بری طرح جھکڑ لیا۔ شوہر کے انتقال پر فاتحہ خوانی کے لئے آنے والوں کو ان سے اظہار افسوس کی بجائے اس بات میں زیادہ دلچسپی تھی کہ اب یہ یہاں اکیلی کیسے رہے گی۔ مرد کے بغیر خود کو کیسے محفوظ رکھ پائے گی۔۔۔۔ کیا مرد کے بغیر عورت کا اکیلا رہنا کوئی مزاق ہے؟ اس کے بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے گھر لے جائے ورنہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنائے گے, لوگ ان ہی باتوں میں لگے ہوئے تھے ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ خاتون اور ان کے بچے پر کیا گزر رہی ہے۔

اس کی مرضی جاننے میں کسی کو دلچسپی نہیں تھی اس سے کوئی نہ پوچھتا کہ کیا وہ اپنا گھر چھوڑنا چاہتی ہے؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر ماں باپ کے گھر واپس جائے؟ بہر حال ہر کوئی اپنا تبصرہ ہی کرتا رہا۔۔

ہم ہمیشہ سنتے ہیں کہ لڑکی شادی سے پہلے اگر پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو وہ دنیا کی نظروں سے محفوظ ہوکر اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی اختیار مند ہو جاتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے بلکہ اکیلی عورت کو ایک مرد ہی اس معاشرے میں لوگوں سے عزت دلوا سکتا ہے (یہ اکثر لوگوں کی سوچ ہوتی ہے)

وہاں موجود تمام لوگوں کو باتیں کرتے سنتے ہوئے میری نظریں صرف اس عورت پر تھی جو اپنے شوہر کی دنیا کے جانے کا غم سہہ رہی تھی لیکن ساتھ ایک گہرے سوچ میں تھی۔ میں جاکر اس کے پاس بیٹھی اور ان سے ان کی مرضی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے اتنے گہری سوچ میں کیوں ہے, اس نے بتایا کہ وہ یہاں اپنا کاروبار سنبھال کر اپنے بچے کو خود پڑھانا لکھوانا چاہتی ہے۔

وہ ہر گز یہ نہیں چاہتی کہ وہ کسی پر بوجھ بن کر اپنی باقی زندگی گزارے اگر چہ اس کی مالی حالت کوئی اتنی اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی کمائی کے حساب سے زندگی گزارنا چاہتی ہے کہ جو بھی ہے اپنے پاؤں پر کھڑی ہے اور اپنا اور اپنے بیٹے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔

اس نے بتایا کہ ایک بات اسے پریشان کر رہی ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی کے مطابق یہاں رہتی ہے تو لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے کہ نہ جانے یہ کیوں اکیلا رہنا چاہتی ہے اور اگر گھر چھوڑ کر جاتی ہے تو ساری زندگی اپنے بھائیوں اور بھابیوں کے احسانوں تلے دب کر گزار دے گی یہی بات مجھے زیادہ پریشان کررہی ہے۔

اس نے بتایا کہ وہ ہر گز نہیں چاہتی کہ اس کا بیٹا کسی کا محتاج اور احسان مند ہو۔ اس خاتون کو دیکھ کر اور پھر ان کی باتیں سن کر مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ اس معاشرے میں اکیلی عورت خواہ کتنی ہی اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے، اپنا گھر بھار سنبھال لیں، مگر ہمارے معاشرے میں وہ لوگوں کی نظروں سے تب ہی بچ پاتی ہے کہ یا تو وہ اپنے والدین کے گھر ان کے سائے میں رہے اور یا شادی ہو کر اپنے گھر شوہر کی سرپرستی میں رہے۔

انڈیپنڈنٹ عورت اکیلی اور محفوظ رہے ایسا ہمارے معاشرے میں قابل قبول نہیں۔

حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button