سیاست

خیبرپختونخوا کی جیلوں میں 13 ہزار سے زائد قیدی انتخابی عمل میں نظرانداز

کامران علی شاہ

عام انتخابات میں ٹرن آوٹ بڑھانے کے لئے عوام کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ ایسے مخصوص طبقات جوکسی محرومی کا شکار ہو اور پولنگ سٹیشن جاکر ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے ان کے لئے پوسٹل بیلٹ کی سہولت موجود ہے۔

ان محروم طبقات میں قیدی بھی ایک طبقہ ہے جن کو قید کے علاوہ تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور ووٹ کاسٹ کرنا بھی انہی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ جیلوں میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے قیدی اپنے مرضی کے نمائندوں کا ووٹ کے ذریعے انتخاب کرسکتے ہیں۔

الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا شمشاد خان نے پوسٹل بیلٹ کے حوالے سے بتایا کہ وہ لوگ جو اپنے اضلاع سے باہر سرکاری ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں ،معذور افراد جو پولنگ سٹشن نہیں آسکتے، پولیس اور سیکورٹی اہلکار ،جیل ملازمین اور قیدی پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں۔

ان تمام افراد کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے کے توسط سے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کو درخواست دیں جس میں دئے گئے کوائف کی تصدیق کے بعد انہیں پوسٹل بیلٹ جاری جائے گی۔ اس طرح جیل میں قید افراد کے لئے محکمہ جیل خانہ جات کو ایک پروفارمہ ارسال کیا جاتا ہے جس میں پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے کے لئے قیدیوں کے کوائف درج کئے جاتے ہیں۔

قیدیوں کے کونسے کوائف درج کرنا لازمی ہوتا ہے اس حوالے سے ترجمان الیکشن کمیشن سہیل احمد نے کہا کہ پروفامہ میں قیدیوں کے شناختی کارڈ نمبرز،ووٹ نمبر اور جیل جہاں وہ قید ہے درج کئے جاتے ہیں۔ پروفامہ کے ساتھ قیدیوں کی شناختی کارڈ کی فوٹؤ کاپیاں لگا کر اور جیل سپرٹینڈنٹ کے دستخط کرنے کے بعد متعلقہ ریٹرنگ آفیسر کو بھجوا دیا جاتا ہے۔

قیدیوں کیلئے پوسٹل بیلٹ پر ووٹ کاسٹ کرنے کی تصدیق خیبر پختونخوا کے آئی جی جیل خانہ جات محمد عثمان محسود بھی کر رہے ہیں۔ عثمان محسود بتاتے ہیں کہ جیلوں میں مختلف انتخابی حلقوں کے افراد قید ہوتے ہیں الیکشن رولز کے مطابق قیدیوں کے لئے پوسٹل بیلٹ کا طریقہ کار موجود ہے اس لئے الیکشن کمیشن انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ایک پروفارمہ بھجوادیتا ہے جس کو تمام جیلوں میں بھجوادیا جاتا ہے۔

عثمان محسود کہتے ہیں قیدیوں پر ووٹ ڈالنے کے لئے کوئی دباؤ نہیں ہوتا جو بھی قیدی ووٹ ڈالنا چاہتا ہے خواہ و ہ مرد ہو یا عورت پروفارمہ پر کرکے پوسٹل بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں جیل اور اس میں قید افراد کی تعداد کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق صوبہ بھر میں کل 33جیل ہیں جس میں قیدیوں کی تعداد 13ہزار سے لیکر 15ہزار تک ہوتی ہے۔

آئی جی جیل خانہ جات عثمان محسود بتاتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی اور جرائم کی وجہ سے گرفتاری و جیل منتقلی کا عمل جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے تعداد کبھی بھی مستقل نہیں رہتی۔ آئی جی عثمان محسود کے مطابق 2018 کے انتخابات میں جیلوں کے اندر پوسٹل بیلٹ کا استعمال ہوا تھا جس میں 1536 افراد نے حق رائے دہی استعمال کیاتھا یہ عمل صوبے کے تمام جیلوں میں کیا گیا تھا۔

13سے 15 ہزار کے قریب قیدیوں میں اگر صرف 1536 افراد ووٹ پول کرے تو یہ کل تعداد  2یا 2.5 فیصد ہے جو کہ انتہائی کم ٹرن آوٹ ہے۔ جیلوں میں کم ٹرن آوٹ کی وجہ بھی سامنے آئی ہے آئی جی جیل خانہ جات کے مطابق  جیل میں کنٹرولڈ انوائرمنٹ ہوتا ہے اور جیل مینئول کے مطابق یہاں کوئی انتخابی مہم بھی نہیں چلائی جاسکتی اور نہ ہی کوئی آگاہی سیمینار یا ورکشاپ کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ صرف قیدیوں کی اصلاح کے لئے بعض اوقات انسانی حقوق کی تنظیموں کو رسائی دی جاسکتی ہے یا قیدیوں کو ہنر سیکھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور سرگرمی نہیں کی جاتی   اور یہی وجہ ہے کہ اکثر قیدی ایک تو اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہوتے ہیں اور دوسری  بات یہ کہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ بھی کاسٹ نہیں کرتے۔

سماجی بہتری کے لئے کام کرنے والی تنظیم "دہوا لور”کی چیئر پرسن خورشید بانو کہتی ہے کہ جیلوں میں قید افراد کو بھی ووٹ کا حق حاصل ہے تاہم اس حوالے سے انہیں آگاہی دینا بھی بہت ضروری ہے۔ انتخابات قومی ہو بلدیاتی ہویا کسی اور قسم کے قیدیوں کو اپنے حلقوں کے امیدواروں اور انکے پارٹی منشور کے حوالے سےآگاہی دینی چاہئے۔

خورشید بانو نے 2018 انتخابات میں جیلوں سے صرف 1536 افراد کے ووٹ کاسٹ کرنے پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جیلوں کا ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا اگر قیدیوں کو آگاہ کیا جاتا تو شائد ووٹوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔

خورشید بانو کہتی ہے کہ جیلوں میں ووٹ کی اہمیت،طریقہ کار ،سیاسی جماعتوں کی نمائندوں اور منشور کے حوالے سے قیدیوں کی آگاہی اور انتخابی مہم کے حوالے حکومت  کوقوانین بنانے چاہئے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ اس حوالے سے آواز بلند کریں۔

خورشید بانو نے مطالبہ کیا کہ پوسٹل بیلٹ کو بیلٹ بکس تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کے لئے بھی حکومت کو اقدامات کرنے چاہئے تاکہ اس بات کی تصدیق ہو کہ ووٹ متعلقہ حلقہ کے بیلٹ بکس تک پہنچ کر دیگر ووٹوں میں شمار کیا جاچکا ہے۔

آگاہی نہ ہونے کے ساتھ جیل میں سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں ہے آئی جی جیل خانہ جات کہتے ہیں جیل اصلاح کی جگہ ہے یہاں "پرزن رولز "کے مطابق سیاسی سرگرمیوں یا انتخابی مہم کی اجازت نہیں دی جاسکتی تاہم وہ کہتے ہیں ابھی تک کسی سیاسی جماعت کے لیڈر نے جیل میں انتخابی مہم چلانے کے لئے ان سے رابطہ بھی نہیں کیا ہے۔

جیلوں میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے  ووٹ  اور اس کے لئے قیدیوں میں آگاہی اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے جب سینئر قانون دان علی گوہر درانی سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ ہمارے جیلوں میں زیادہ تر قیدی انڈر ٹرائل ہیں جن کے ووٹ کا حق کسی بھی صورت معطل نہیں کیا جاسکتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے کاسٹ کئے گئے ووٹ بیلٹ بکس تک بھی پہنچتے ہیں یا نہیں اور اس کو کس طرح بیلٹ بکس تک پہنچا کر دیگر ووٹوں میں شمار کیا جاتا ہے اس حوالے سے قانون خاموش ہے۔

علی بتاتے ہیں کہ ووٹ ڈالنے کے لئے قیدیوں کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے تاہم انکے مشاہدے سے یہ نہیں گزرا ہے کہ جیل میں ووٹ سے متعلق قیدیوں کی آگاہی کےلئے کوئی سیمینار یا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ہوجس میں قیدیوں کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار سیکھایا گیا ہو یا کسی بندے کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی ہو۔

علی گوہر درانی کہتے ہیں خواتین ،معذور اوردیگر محروم طبقات کی طرح قیدی بھی محروم طبقہ ہے جو کہ جیل عملے کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں لہذا یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ جیلوں میں ٹرن آوٹ بڑھانے کے لئے قیدیوں میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے شعور پیدا کریں۔ ساتھ ہی سیاسی افرادکو اقتدار میں آکر اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ یہ محروم طبقہ بھی ووٹ کا صحیح استعمال کرسکے۔

جیل میں اگر انتخابی مہم نہیں چلائی جاسکتی، کوئی سماجی تنظیم آگاہی پروگرام کا انعقاد نہیں کرسکتاتو قانون کے مطابق الیکشن کمیشن ذمہ دار ہے کہ وہ جیلوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرے۔ اس بارے میں  پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان الیکشن کمیشن سہیل احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا آوٹ ریچ ونگ صوبائی سطح پر محدود حد تک ووٹ کی اہمیت اور ٹرن آوٹ بڑھانے کے حوالے سے کام کر رہا ہے۔ زیادہ تر تعلیمی اداروں میں اور محروم طبقات کے لئے مختلف جگہوں پر سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے تاہم ابھی تک جیلوں میں کوئی آگاہی سیشن منعقد نہیں کیا گیا ہے۔

سہیل احمد نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس بار الیکشن کمیشن کے پلان میں شامل تھا کہ قیدیوں تک بھی رسائی حاصل کی جاسکے لیکن کچھ وجوہات کے بناپر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ سہیل احمد ماتنے ہیں کہ جیلوں میں ٹرن آوٹ کم ہونے کی اصل وجہ آگاہی کا نہ ہونا ہے کیونکہ جو لوگ آگاہ ہوتے ہیں وہ ووٹ کا استعمال ضرور کرتے ہیں۔

نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک بھر کے جیلوں میں قیدیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جس میں ووٹ کی اہمیت سے آگاہی اور ٹرن آوٹ بڑھانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے قیدیوں کی بڑی تعداد ووٹ کا استعمال نہیں کرتی۔

اس حوالے سے پشاور کے ایک اور سینئر قانون دان سیف اللہ محب کاکاخیل نے بتایا کہ اگر جیل میں قیدیوں کو ہنر سیکھنے ،تعلیم حاصل کرنے سمیت دیگر سہولیات حاصل ہے تو ووٹ کے حوالے سے شعور و آگاہی کی بھی سہولت حاصل ہونی چاہئے۔

سیف اللہ نے ارادہ ظاہر کیا کہ اس حوالے وہ بہت جلد ایک رٹ پٹیشن پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرنے جارہا ہے جس میں قیدیوں کےلئے آگاہی ،انہیں اپنے حلقوں ،سیاسی افراد اور انکے منشور کے حوالے سے باخبر کرنے کےساتھ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو بھی جیلوں کے اندار مہم چلانے کے لئے ہنگامی بنیادو ں پر اقدامات اُٹھائے جائے تاکہ قیدیوں کی بڑی تعداد ووٹ کا استعمال کرسکے۔

جیل میں قید افراد کو اپنا پیغام و منشور پہنچانے اور انتخابی مہم کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے سیاسی جماعتوں کے  ذمہ داران نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اہم مسئلہ قرار دیا۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر (ر)محمد ابراہیم خان نے بتایا کہ آپ نے  پہلی بار میری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے حقیقت میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ جیلوں میں انتخابی مہم کی اجازت نہ ہونا بہت بڑی کمی ہے حکومت کو چاہئے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو جیلوں کے اندر انتخابی مہم اور اپنا منشور قیدیوں تک پہنچانے کی اجازت دے تاکہ قیدی بھی  اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ طور پر ووٹ کا استعمال کریں۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا اس حوالے سے اپنا پروگرام ترتیب دیگی لیکن صوبائی حکومت کو بھی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی موقع دے اور قیدیوں کوبھی ووٹ کا استعمال کرنے دیا جائے۔ پروفیسر(ر)محمد ابراہیم خان کہتے ہیں گزشتہ انتخابات میں جیلوں میں قید افراد کو پیغام نہ پہنچا سکے تاہم اس بار کوشش ہوگی کہ قیدیوں کو بھی اپنے منشور سے آگا ہ کرسکے۔

اس بارے میں جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے کہا کہ جیل میں سیاسی جماعتوں کی  انتخابی مہم چلانے کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ ایک بڑا مسئلہ بن جائے اور ہر کوئی جیل جا بھی نہیں سکتا تاہم قیدیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہئے جیسا کہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے انہیں حاصل ہے۔ ساتھ ہی قیدیوں کو ووٹ کے استعمال کے حوالے سے آگاہی بھی دینی چاہئے تاکہ صحیح طریقہ سے ووٹ کا استعمال کیا جاسکے۔

اگر کوئی قانونی قدعن نہ ہو تو ہر شہری کوووٹ کے استعمال کا جو حق حاصل ہے وہ  قیدیوں کو بھی حاصل ہونا چاہئے۔خصوصا الیکشن کمیشن جو دیگر طبقات کو ٹرن آوٹ بڑھانے کے لئے آگاہی دیتا ہے قیدیوں کے لئے بھی آگاہی کا پروگرام ہونا چاہئے  اور میں اس حق میں بھی ہو کہ ٹرن آوٹ بڑھانے اور ووٹ کے صحیح استعمال کے لئے قیدیوں کی آگاہی بہت ضروری ہے۔

پشاور کے پی کے 82 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اور صوبائی رہنما ضیاء اللہ آفریدی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس حوالے ابھی تک کوئی آگاہی نہیں تھی تاہم یہ اچھی بات ہے کہ سیاسی لوگ جیل میں قید افراد کو اپنا پیغام پہنچائے۔ انہوں نے اس مسئلہ کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس  ایشوء کو اُٹھانا چاہئے کیونکہ جیلوں میں ووٹروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ضیاء اللہ آفریدی نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اس  حوالے سے آئی جی جیل خانہ جات سے رابطہ کرے گا اور ان سے طریقہ کار کے حوالے سے معلومات حاصل کریگا تاکہ قیدیوں تک اپنا منشور پہنچا سکے اوراسی طرح  ٹرن آوٹ میں اضافہ ہو۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button