سیاست

"خاتون سیاست دان کے پیچھے مرد کا چلنا حرام ہے”

 

 سلمیٰ جہانگیر

عورت کے پیچھے چلنا حرام ہے اس کے پیچھے ہم مرد نہیں چل سکتے، پختون روایات میں حجرے، مسجد میں خاتون نہیں بیٹھ سکتی تو پھر سیاست کیسے کر سکتی ہیں۔ ثمر ہارون بلور کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کی نظر میں یہ وہ تنگ نظر لوگ ہیں جو ان کی طرح با صلاحیت خواتین کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کی سابقہ ایم پی اے ثمر ہارون بلور کو فنڈز کی کمی کے ساتھ چند ایک لوگوں کی منفی رویوں کا بھی سامنا رہا ہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری جس طرح کے بھی مسائل تھے بہادری اور حوصلے ساتھ انکا مقابلہ کیا۔۔

پچھلے الیکشن میں بیرسٹر ہارون بلور کا انتخابی مہم کے دوران خود کش دھماکے میں شہادت کے بعد ان کی اہلیہ ثمر ہارون بلور نے ضمنی انتخابات 2018  میں حلقہ پی کے 78 سے الیکشن لڑا تھا اور پی ٹی آئی کے محمد عرفان کو شکست دی تھی۔ ثمر ہاررون بلور  16 سالوں میں صوبائی اسبملی میں ایک جنرل نشست پر منتخب ہونے والی پہلی خاتون رکن تھی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات 2018 میں جنرل نشستوں پر کل 183 خواتین نے مقابلہ کیا تھا لیکن ان میں صرف 8 امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جنرل نشستوں میں حصہ لینے والی خواتین میں سے سندھ سے 4، پنجاب سے 3 اور بلوچستان سے ایک امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ خیبر پختونخوا سے جنرل نشست پر کسی بھی خاتون کو کامیابی حاصل نا ہوسکی تھی۔

2017 کی انتخابی اصلاحات بل نے تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی الیکشن کے لئے کم از کم 5 فیصد ٹکٹ خواتین کے لئے مختص کریں۔

پشاور شہر کا 58 سالہ وزیر محمد کہتا ہے کہ پختون روایات کے اندر ایک خاتون کے لیے سیاست میں حصہ لینا آسان ہے لیکن اس کے بعد کام کرنا کافی مشکل ہے اول مرحلے میں تو لوگ ان کو ووٹ نہیں دیں گے اگر ان کو ووٹ دے کر کامیاب بھی کیا جائے تو یہاں کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

کس طرح کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ سوال کے جواب پر وزیر محمد کہتے ہیں کہ عام لوگوں کو اس بات کی پہچان نہیں ہے کہ ایک خاتون سیاست دان کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے ۔ دن رات ان کو ٹیلفون پر چھوٹے چھوٹے مسائل بتانا۔ جبکہ دوسری جانب عام لوگوں کا بھی خیال ہے کہ ایک خاتون حجرے ،مسجد میں بیٹھ کر ایک علاقے کے مسلے حل نہیں کرسکتی۔ ان کے مقابلے میں ایک مرد رکن کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ دعوت دے کر اپنے علاقے کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔

ثمر ہارون بلور نے حلقہ پی کے 78 سے ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد کس طرح یہ ثابت کیا کہ اب اس روایت کو توڑ دیا جائے کہ خاتون صرف مخصوص نشست پر منتخب ہو کر آئے گی بلکہ وہ مرد امیدوار کی طرح الیکشن لڑ کر منتخب ہونے پر یقین رکھتی ہیں۔ اور بتاتی ہیں کہ  اور خواتین کی طرح  اس دفعہ انتخابات میں ان کے پاس بھی مخصوص نشست کا اختیارتھا جو انہوں نے استعمال یا اختیار نہیں کیا  کیونکہ انہوں نے یہ دیکھا تھا پچھلی دفعہ بھی اسمبلی میں واحد براہ راست منتخب خاتون  ایم پی اے تھی۔ لوگوں نے ان میں اور باقی خواتین میں بڑا فرق کیا تھا۔

ثمر نے بتایا کہ حالانکہ انکا اپوزیشن سے تعلق تھا ہاتھ میں بہت کم فنڈز اور وسائل تھے کیونکہ حکومت ان کی پارٹی کی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی بہت خراب رویہ تھا اپوزیشن کے ساتھ ، بہرحال پھر بھی کیونکہ ایک حلقےکی نمائندگی کرتی تھی تو انتظامیہ نے ساتھ بہت تعاون کیا تمام اداروں نے کافی تعاون کیا جس کی وجہ سے ایک خاص حد تک لوگوں کے کچھ مدد ہو سکی تھی۔

ثمر ہارون بلور نے کہا کہ اسکے مقابلے میں جو مخصوص نشست پر انے والی ان خاتون ساتھی تھی بڑی محنتی عورتیں ہیں لیکن ان کا کام زیادہ تر اسمبلی کے اندر ہوتا تھا وہ بہت بہادر ممبرز ہوتی تھیں لیکن وہ کام نا کرسکی جو ایک منتخب ممبرز کر سکتی ہیں۔

ثمر بلور ایک حلقے کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں  تو اس دفعہ بھی براہ راست اانتخابات کے لیے الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کرائی ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی صدر و سابق ایم پی اے رابعہ بصری جوپشاور سے ہی مخصوص  نشست پی کے 77 پر آئی تھی انہوں  نے کہا کہ جیسے ایک بندہ منتخب ہو کر یا ووٹ لے کر اتا ہے تو وہ اپنے حلقہ   میں  ہر چیز کا ذمہ وار ہوتا ہے اس کو لوگوں کا ہر وقت سامنا رہتا ہے مخصوص  نشست آپکو پارٹی کی جانب سے ملتی ہے تو اپ کی خدمات پارٹی کی جانب سے دی جاتی ہے اور پارٹی کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔

وہ اپنے کام کے حوالے سے کہتی ہیں کہ اس نے بھی اپنے حلقے کے لئے بہت کام کیا ہے ایسا نہیں ہے کہ ایک ریزرو سیٹ پر آیا ہوا نمائندہ کام نہیں کرسکتا۔ اپنی پارٹی کی جانب سے  مخصوص نشست دی گئی جو وعدہ تھا وہ اپنی طرف سے پورا کرنے کی کوشش کی تقریبا 400  یا 500 کے قریب  مخصوص لوگوں کے لیے کسی نا کسی طریقے سے کام کیا۔ ویل چئیرز سے لے کوئی نا کوئی ہنر کی تربیت تک کام کیا ہے ان کے لئے ایک ووکیشنل سکول قائم کیا ہے جس میں تمام ہنر مند جو سپیشل پرسن ہے اور کچھ نہیں کرتے اور بیکار میں بیٹھے ہوئے ہیں تربیت دی جاتی ہے۔

اسی طرح خواجہ سرا کوعلاج کے حوالے سے ہسپتال میں مسائل تھے اپنی حکومت کی مدد سے ہر سرکاری ہسپتال میں اب خواجہ سرا کے لیے کم از کم 2 بیڈ مختص ہوئے ہیں۔ جہاں پر اب صرف ان کا علاج ہوگا۔ ڈاکٹرز کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ بغیر کسی تفریق کے ان کو بروقت علاج ی سہولت دی جائے۔

حلقہ پی کے 78 علاقے رشید گڑھی سے تعلق رکھنے والی نیاز بی بی کہتی ہیں کہ ثمر بلور نے انکے  علاقے کے لوگوں کے لئے بہت سے کام کئے ہیں جن میں  گلیوں  کا تعمیراتی   کام ،گلیوں  کے چوراہوں  پر بلب لگوانا اور لنک روڈ کو پختہ بنانے کے کام شامل ہیں۔

جبکہ گل منیر جنکا تعلق بھی  ثمر بلور کے حلقے سے ہے کا کہنا ہے کہ ایسے چھوٹے چھوٹے کام تو  علاقے کا کونسلر بھی سر انجام دیتا ہے۔  انہوں نے کہا کہ شدید گرمی میں جب علاقے کے ٹرانسفارمر خراب ہو جاتے تو  علاقے کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت چندہ اکھٹا کر کے اپنا مسئلہ خود  حل کرتے تھے۔ اس سلسلے  میں ہماری کوئی مدد نہیں  ہوئی اسکے علاوہ گیس کا مسئلہ اور بجلی کے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ  تا حال حل نا ہو سکا اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اس علاقے کا  خواتین کی بجائے کوئی مرد وزیر ہو۔ اب بار بار یا صبح شام تو خاتون کے پیچھے مرد نہیں جا سکتے انکے ساتھ حجرے، گلی میں بات کر کے مسائل حل ہوسکتے ہیں جبکہ خاتون کے ساتھ کافی مشکل کام ہے۔

اس حوالے سے ثمر بلور کا کہنا ہے کہ مخالف پارٹی میں ہوتے ہوئے انکے پاس فنڈز کی کمی تھی کیونکہ پی ٹی آئی حکومت زیادہ تعاون نہیں کرتے تھے تاہم انہوں نے کم  بجٹ میں بھی اپنے حلقے کے عوام کے مسائل حل کئے ہیں اور کوئی شکایت کا موقع نہیں دیا۔

سابقہ ایم این اے اور صوبائی سیکرٹری برائے انفارمشین کہتی ہیں کہ ایک سیاسی خاتون کو الیکشن مہم سے لے کر اسبملی تک پہنچنے اور بعد میں اپنے حلقے کے لئے کام کرنے میں کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ وہ ایک پارٹی کی وکٹ ہولڈرہیں کیمپین میں بھی مشکلات تو ہیں جو اپ کو صحیح طریقے سے اپ کی باتوں کا جواب نہ دے سکیں یا اپ کا مقابلہ نہ کر سکے تو ان کا ایک الزام ہوتا ہے کہ یہ تو عورت ہے عورت کے پیچھے ہم نے نہیں چلنا  عورت کے پیچھے چلنا حرام ہے اس قسم کی بے شمار باتیں اور افواہیں آپکے حریف پھیلاتے ہیں۔

ثمر بتاتی ہیں کہ ان کو پتہ ہے کہ وہ عورت ہیں۔ سپورٹرز کو بھی پتہ ہے کہ وہ ایک خاتون ہیں اب دنیا بدل گئی ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اب اپنی خواتین ورکرز کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ اپنی فیمیل لیڈرشپ کو سپورٹ کریں اور اپنے اچھے وننگ ایریاز میں ان کوٹکٹ دیں۔ تو عوام  انکے ساتھ تعاون  کے لئے تیار ہیں۔

ثمر ہارون بلور بتاتی ہیں کہ وہ بھی تو اس معاشرے میں رہتی ہیں  اس معاشرے میں ہی سیاسی کیمپین چلاتی ہیں۔ 5 سالوں سے لوگوں نے بڑی عزت دی ہے ایک مقام دیا ہے مشکلات ہیں بہت آسان کام نہیں ہے لیکن ناممکن کام بھی نہیں ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتیں خواتین و ٹکٹ دیں اور پھر خواتین ہی آگے بڑھ اس گیپ کو ختم کریں گی کہ سیاست صرف مرد کا کام ہے خواتین کا نہیں ۔

دوسری جانب فرزانہ یاسمین جو کافی عرصہ امریکہ میں رہ چکی ہیں بتاتی ہیں کہ لوگوں کے روئے تبدیل کرنے میں وقت لگے گا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک یا اس کے صوبے خیبرپختونخوا جیسی دہشت گردی سے متاثرہ کم پڑھے لکھے لوگ تو کیا امریکہ جیسے ملک میں جب 2016 میں ٹرمپ مقابلہ ہلیری کیلنٹن کا ہو رہاتھا تو لوگ ہلیری کے حق میں نہیں تھے کہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے اس لئے کہ ہیلری ایک خاتون ہیں وہ امریکہ کی پالیسی کو کمزرو کر سکتی ہیں۔

فرزانہ سمجھتی ہیں کہ جب ہیلری پالیسی کو اس لئے کمزور کریں گی کہ وہ خاتون ہیں اور خاتون کو کمزور سمجھا جاتا ہے وہ ہار سکتی ہیں تو پھر خیبر پختونخوا میں ایک سیاست دان خاتون کے لئے مقام پیدا کران کافی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

صوبائی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان سہیل احمد کے مطابق 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے 115 جنرل سیٹ پر 3 ہزار 349 مرد جبکہ 115 خواتین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ یہ اب تک کا رف ڈیٹا ہے تو بتانا مشکل ہے کہ کس کس خاتون نے کاغذات جمع کرائے ہیں فائنل لسٹ میں ابھی تھوڑا وقت لگے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2018 کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں خیبر پختنخوا کی بہت سی خواتین نے جنرل انتخابات میں حصہ لیا جس میں کرم سے بھی ایک خاتون نے الیکشن میں حصہ لیا تھا اسی طرح انیلا شاہین تھی اور ثمر بلور نے ضمنی انتخابات میں اپنی نشست جیت لی تھی۔

بیگم نسیم ولی خان کا نام سب سے سہرفرست ہیں جنہوں نے 3 مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور جیت کر دکھایا۔ اس طرح اس دفعہ چونکہ ابھی کاغزات نامزدگی مکمل ہو رہی ہے تو ابھی اندازہ نہیں ۔ میرا ج ہمایوں  مسلم لیگ نون صوابی سے الیکشن لڑ رہی ہے وہ الیکشن کنٹسٹ کرنا چاہ رہی ہیں اس طرح اور بھی بہت ساری ہیں کہ جو جنرل نشستوں پر آرہی ہے باقی جو یہ ڈائریکٹ نشست سے اس لیے نہیں کھڑے ہو رہی کہ ایک تو ان کو پارٹی کی طرف سے ہو سکتا ہے کہ ہدایت  ہوں کہ وہ ریزرو سیٹس پہ آئے ۔

ترجمان کے مطابق ریزرو سیٹس کی کل تعداد صوبے میں 26 ہیں اب تک کوئی 200 سے زائد نامینیشنز پیپرز فائل ہو گئے ہیں تو دیکھتے ہیں اس طرح 66 کے قریب نامینیشن پیپرز قومی اسمبلی میں جو کہ خیبر پختونخواہ کے کوٹے سے ہیں جو 10 سیٹیں ہیں۔

پشاور شہر کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگارلحاظ  علی خواتین کا الیکشن نا لڑنے کی بہت سی وجوہات بتاتے ہیں کہ جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں خواتین نے حصہ لیا ہے لیکن بد قسمتی سے وہ آگے چل کر باقی خواتین کے لئے   عملی نہیں ہوا۔  بیگم نسیم ولی خان نے 1988 ،1990۰،اور 1993 کی انتخابات میں  حصہ لیا اور کامیاب بھی  ہوئی تھیں۔

اے این پی کو چاہئے تھا کہ وہ اور خواتین کو بھی سامنے لاتے لیکن ایسا نا ہوا تو یہ اقدار ، روایات کا مسئلہ  ہے اور ان روایات کے خلاف جانے کو کوئی تیار نہیں۔

لحاظ علی کے  مطابق اسکے علاوہ  تعلیم کی کمی بھی ایک مسئلہ تھا اس لئے خواتین براہ راست جنرل الیکشن میں سامنے نہیں آئی جس طرح وقت کی ضرورت تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پرویز  مشرف کے دور میں انہوں  نے جب لیگل فریم ورک لاء  معتارف خواتین ریزرو سیٹس پر آنا شروع ہوئی۔ اور پھر زرتاج گل ،فردوس عاشق اعوان اور ایسی بہت سی خواتین  میدان میں  آئیں۔

لحاظ علی نے کہا کہ ثمر ھارون بلور کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور انہوں نے وہ کیش بھی کیا کیونکہ سسر  بشیر بلور اور پھر شوہر ہارون بلور کی وفات  کے بعد وہ اپنی پارٹی سے الیکشن لڑ رہی تھی لیکن یہ بات بھی ہے ثمر بلور با صلاحیت   عورت ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو کامیاب کیا۔

تجزیہ نگارلحاظ  علی معاشرتی تبدیلی  لانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ  یہ بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں  ہوتی۔  اسکے لےبہت عرصہ درکار ہوتا ہے اسی لئے   تبدیلی   لانا اتنا آسان کام نہیں  ہوتا۔ 2018 میں دیر کی ایک خاتون شاہدہ کو پی ٹی آئی   نے ٹکٹ دیا تھا اور اس دفعہ تو سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے خواجہ سراء بھی الیکشن   لڑ رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔ لحاظ علی نے کہا کہ خواتین کو آگے آنا چاہئے  اور ایکٹیو پولیٹکس میں   حصہ   لینا چاہئے  اس  سلسلے  میں  پی ٹی آئی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور باقی تمام سایسی جماعتوں کو بھی اہم پیش رفت کرنی چاہیئے۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button