صحت

"افغان خواتین پاک افغان سرحد پر بچے کو جنم دے گی یا موت کو گلے لگائے گی”

 

ناہیدجہانگیر

پاکستان سے جانے کے بعد لگتا ہے خواتین پاک افغان سرحد پر یا تو بچے کو جنم دے گی یا پھر موت کو گلے لگائے گی۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گائنی او پی ڈی کے سامنے سوچ میں گم بس پری کہتی ہیں کہ اس کی حاملہ بہو کی حالت کافی خراب ہے۔ وہ افغانستان کے قندہار صوبے سے آئے ہیں لیکن وہاں سے آنا اور ویزہ مرحلے سے گزرنے کے بعد ان کو 10 دن لگے ہیں۔ پہلے وہ پشاور میں رہتی تھی لیکن جب سے پاکستان کی حکومت نے افغانیوں کو نکالنے کا کہا ہے تو اب ان کو گئے تقریبا 3 مہینے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت نے تمام افغان پنا گزینوں کو امن و امان قائم ہونے کے بعد اپنے ملک افغانستان جانے کا حکم دیا ہے اس اعلامیے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افغان باشندے سرحد پار کر اپنے ملک جا رہے ہیں۔ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے دی گئی مہلت یکم نومبر کو ختم ہوچکی ہے.

اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے جون 2023 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 13 لاکھ 30 ہزار کے قریب رجسٹرڈ افغان رہائش پذیر ہیں جبکہ 8 لاکھ کے قریب غیر رجسٹرڈ رہائش پذیر ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 9 لاکھ 56 ہزار سے زائد افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن میں 6 لاکھ 48 ہزار 964 کے پاس افغان رجسٹریشن کارڈ موجود ہیں۔

افغانستان کے حالات کاروبار سے لے کر تعلیم اور صحت تک بہت خراب ہیں

بس پری افغانستان میں صحت کی سہولیات کے حوالے سے کہتی ہیں کہ 40 سالوں سے زائد مسلسل جنگوں کی وجہ سے افغانستان کے حالات کاروبار سے لے کر تعلیم اور صحت تک بہت خراب ہیں اگر اب امن ہے بھی تو حالات بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔
بس پری علاج و معالجے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں کہتی ہیں کہ موت تو اللہ کی طرف سے ہے لیکن اپنے پیاروں کو طبی سہولیات نا ہونے کی وجہ سے مرتے ہوئے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ خاص کر حاملہ خواتین کیا کریں گی۔ پاکستان سے انخلا کے بعد پیچیدہ کیس کے حاملہ خواتین کا کیا ہوگا۔

وہ اب بھی اپنی بہو کو بہت مشکل سے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے کر آئی ہیں ان کا کیس پیچیدہ ہے اور افغانستان میں سہولیات کی کمی کی وجہ سے ان کو پشاور لے کر آنا پڑا۔

کابل میں ڈاکٹر نے کہا کہ پشاور چلی جاو

دوسری جانب گل رنگہ بھی کابل سے آئی ہیں جن کو ڈاکٹر کے معائنے کے بعد گائنی وارڈ میں داخل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان کی ڈیلیوری میں وقت ہے لیکن ان میں خون کی کمی ہے جس کی وجہ سے ان کو ہسپتال داخل کیا گیا ہے۔ یہاں اب ان کو خون کی ڈرپ لگے گی اور جب تک انکا ایچ بی پورا نہیں ہوگا تب تک وہ ہسپتال میں داخل ہوں گی۔

گل رنگہ کے مطابق انکا ساتواں مہینہ ہے لیکن کمزوری کی وجہ سے وہ کافی بیمار رہتی تھی تو کابل کے ہسپتال کے ڈاکٹر نے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ ان کو پشاور کے ہسپتال لے جایا جائے ورنہ ماں اور بچے کی جان خطرے میں ہو سکتا ہے۔
گل رنگہ اپنی غریبی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر چھوڑے ہوئے 3 بچوں کے لئے بھی پریشان ہیں کیونکہ ان کی ڈیلیوری میں کافی وقت ہے اور کمزروی اور خون کی کمی کی وجہ سے وہ جلدی اپنے گھر کابل نہیں جا سکتی جبکہ بچوں کی فکر الگ پریشان کر رہی ہے۔ ان کے شوہر کھیتوں میں کام کرتے ہیں تو معاشی حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔

افغان خواتین یا پاک افغان سرحد پر بچے کو جنم دے گی یا موت کو گلے لگائے گی

بس پری جو اپنی بہو کو لے کر پشاور کے سرکاری ہسپتال آئی ہیں کہتی ہیں کہ ان افغان حاملہ خواتین کا کیا ہوگا پاک افغان سرحد پر ان کے لیے آنا جانا اتنا آسان نہیں ہے۔ افغانستان کے ہسپتال میں سہولیات کا فقدان ہیں جبکہ یہاں سے نکالا جا رہا ہے اور وہاں سے ایک حاملہ خاتون کا آنا کافی مشکل ہے یا تو وہ پاک افغان سرحد پر بچے کو جنم دے گی یا پھر موت کو گلے لگائے گی۔

اس لئے وہ کہتی ہیں کہ پاکستان سے پناہ گزینوں کے انخلا کے بعد سب سے اہم مسئلہ افغان حاملہ خواتین کو ہوگا۔ کیونکہ وہ تو پاکستان میں پلی بڑی ہیں تو یہاں کی خواتین کی طرح وہ بھی سہولیات کی عادی ہوچکی ہیں جبکہ افغانستان میں علاج کے حوالے سے اتنی اچھی سہولیات نہیں ہیں۔

دوسری جانب لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ترجمان محمد عاصم افغان باشندوں کے علاج و معالجے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہسپتال افغانیوں کو بھی وہ تمام سہولیات فراہم کرتا ہے جو وہ اپنے صوبے کے عوام کو دیتا ہے۔ جس افغان باشندے کے پاس ویزہ، افغان کارڈ یا پاسپورٹ ہو تو انکا علاج ہسپتال میں کیا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button