سیاست

ضلع بونیر کی ڈاکٹر سویرا پرکاش کس سوچ کے تحت انتخابات کے میدان میں اتری ہیں؟

شہزاد نوید 

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر (ڈگر) کی تاریخ میں پہلی بار خاتون اقلیتی امیدوار پچیس سالہ ڈاکٹر سویرا پرکاش پاکستان پیپلز پارٹی سے جنرل نشست کے لئے میدان میں آگئی۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 25 کیلئے اے سی آفس ڈگر میں کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔
سویرا پرکاش نے ابتدائی تعلیم میٹرک غزالی پبلک سکول بونیر اور ایف ایس سی کنیئرڈ کالج لاہور سے حاصل کی جبکہ ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہاؤس جاب سے فارغ ہو کر ان دنوں لاہور میں اکیڈمی جوائن کر کے سی ایس ایس کی تیاری کر رہی ہیں۔
اقلیت سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون امیدوار ڈاکٹر سویرا پرکاش کے والد ڈاکٹر اوم پرکاش گزشتہ 35 برسوں سے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر سویرا پرکاش بونیر میں پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔
ڈاکٹر سویرا پرکاش کا کہنا ہے کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علاقے کے غریبوں کیلئے کام کرنا چاہتی ہوں۔ اس خطے میں خواتین کی فلاح و بہبود، محفوظ ماحول کو یقینی بنانے اور ان کے حقوق کی وکالت کیلئے کام کرنے کا عزم ہے۔
ڈاکٹر سویرا نے کہا کہ ترقی کے میدان میں خواتین کو مستقل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اب خواتین کا سنہرا دور شروع ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جہاں تک ٹکٹ کے بات ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت نے میرے والد سے رابطہ کیا تھا کہ انہیں صوبائی نشست پی کے پچیس پر انتخاب لڑنے کی اجازت دی جائے تو میرے والد نے کہا کہ اب میں اپکو عوام کی خدمت کیلئے میدان میں اتارنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر سویرا پرکاش کے والد ڈاکٹر اوم پرکاش کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سویرا پرکاش کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے لیکن وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ مسائل کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے میدان میں آگئی ہے۔ وہ صرف اقلیتی برادری کے مسائل میں نہیں بلکہ مسلمان برادری کے مسائل حل کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ سب لوگوں سے اپیل ہے کہ اپنی بیٹی اور بہن ڈاکٹر سویرا پرکاش کو کامیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اس میں بونیر اور ملاکنڈ ڈویژن کے کامیابی ہے۔
ڈاکٹر اوم پرکاش نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ضلع بونیر میں اب تک خواتین کو نمائندگی نہیں ملی اس لیے خواتین بشمول ضلع بونیر کے بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ ہمارا تعلق چونکہ ایک متوسطہ گھرانے سے ہے اور ہم عوامی لوگ ہیں اسلئے ہم غریب عوام کے مسائل اور معاملات سمجھ سکتے ہیں۔ 8 فروری 2024 کو عوام اپنا قیمتی رائے ڈاکٹر سویرا پرکاش کے حق میں استعمال کرکے یہ ثابت کرے کہ ڈاکٹر سویرا بونیر اور پشتون قوم کی بیٹی ہے۔
ڈاکٹر اوم پرکاش کے مطابق: وہ گزشتہ 35 برسوں سے پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ بھٹو خاندان نے عوام کو ووٹ کا حق دیا ہے۔ صرف ضلع بونیر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 80 ہزار غریب گھرانے مستفید ہو رہے ہیں۔
"بونیر کی مٹی بہت زرخیز ہے یہاں کا ہر شہری محب الوطن اور مظلوم ہے۔ صرف ڈاکٹر سویرا پرکاش نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا تعلق بھی ضلع بونیر سے ہے”.
مسلمان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالسلام نے کہا کہ یہ ضلع بونیر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے خاتون اور بالخصوص اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون کو صوبائی اسمبلی کا نشست دیا ہے جس کی جتنی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تو کم ہے۔
سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ دیا کوماری نے کہا کہ یہ جیت سے پہلی جیت ہوئی ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے ایک پسماندہ علاقے میں خاتون اور بالخصوص اقلیتی برادری کے کم عمر و سنجیدہ لڑکی کو الیکشن کے دنگل میں اتار دیا۔ سب کو معلوم ہے کہ خاتون دوسرے خواتین کو بہتر سمجھ سکتے ہیں ہمیں امید ہے کہ سویرا کو اگر ایک مرتبہ موقع دیا ہے تو ضلع بونیر کے لوگوں کیلئے مثالی اقدامات اٹھائیں گی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق انتخابات 2024 کے لیے کل 28 ہزار 626 کاغذات نامزدگی موصول ہوئے ہیں جن میں سے تین ہزار 139 خواتین ہیں۔ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر 7716 امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے ہیں جن میں سے 93.8 فیصد مرد ہیں اور 6.2 فیصد خواتین ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 18546 امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے ہیں جن میں 95.6 فیصد مرد ہیں اور 4.4 فیصد خواتین ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے کل 1824 خواتین نے کاغذات جمع کروائے ہیں۔ غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے لیے کل 543 افراد نے کاغذات جمع کروائے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button