سیاست

ووٹ بینک کے حلقوں میں پارٹی ٹکٹس کی تقسیم سے کارکن خواتین محروم ،بیگمات کو فوقیت حاصل

 

 نسرین جبین

خیبر ُپختونخوا میں گزشتہ چالیس سال سے سیاست کرنے والی سابق خاتون رکن قومی اسمبلی طاہرہ بخاری کہتی ہیں۔ "خیبر پختونخوا میں خواتین عام انتخابات میں جنرل سیٹ پر ٹکٹ کی تقسیم کے حصول میں عدم صنفی مساوات کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی کارکن خاتون ہمشہ کارکن ہی ر ہتی ہیں اور عام انتخابات میں اہم پارٹی ٹکٹس بیگمات لےجاتی ہیں۔ یہی حال تمام سیاسی جماعتوں کا ہے موروثی سیاست، کارکن خواتین کی معاشی بدحالی اور ہمارے معاشرتی ماحول نے کارکن خواتین کو زندگی بھر کارکن ہی رکھا یا پھر انہیں ان حلقوں کے ٹکٹس دیئے گئے جہاں پارٹی کا ووٹ بینک ہی نہیں ہوتا اور وہ جیت ہی نہیں پاتیں۔ بس صرف خانہ پوری ہوتی ہے یا پھرمخصوص نشتوں پر جاری فہرستوں میں ان کا نام دے کر ان پر احسان جتایا جاتا رہا ہے اور اسمبلی میں بھی مخصوص نشستوں پر ہونے کے باعث انکی حیثت کسی دو سر ے درجے کے شہری سے کم نہیں سمجھی جاتی”۔

الیکشن کمشن کی طرف سے جاری فہرست کے مطابق ملک بھر میں 175 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 6 پارٹیاں خواتین نے رجسٹر کرا رکھی ہیں۔ ان میں تہمینہ امجد آل پاکستان متحدہ لیگ اسلام اباد سے مسز حسن فاطمہ لبنٰی پی ایم ایل آرگنائزیشن قصور سے، فرخندہ امجد علی پاکستان نیشنل مسلم لیگ فیصل آباد سے غنویٰ بھٹو پی پی پی شہید بھٹو کراچی سے، عائشہ گلائی جماعت صفہ پشاور سے اور بیگم شبین ملک پاک ڈیفنس قومی موومنٹ کراچی سے رجسٹرڈ ہے۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں غیر فعال ہیں جو کسی خاص وجہ یا مقصد کی بنیاد پر بنائی گئیں ہیں اورخیبرپختونخوا کی 16سیاسی جماعتیں الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو ایک خاتون کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔ اس کی چئیر پرسن عائشہ گلالئی ہے جبکہ سیاسی پارٹی کا نام جماعت صفہ ہے جو کہ ابھی تک ایک گمنام پارٹی ہی ہے۔ اس کے علاو ہ صوبے کی بڑی 4 سیاسی جماعتیں ہیں جن میں جماعت اسلامی لاہور سے اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اورقومی وطن پارٹی اسلام اباد سے اور عوامی نیشنل پارٹی پشاور سے رجسٹرڈ ہے۔ علاوہ ازیں ،پاکستان عوامی انقلابی لیگ ،پاکستان راہ حق پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی پاکستان،تحریک درویشان پاکستان ،جماعت صفہ رجسٹرڈ ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان ایس نوشہرہ سے پاکستان امن تحریک اور،پاکستان فلاحی تحریک صوابی سے ،تحریک صوبہ ہزارہ پاکستان ایبٹ اباد،ہزارہ قومی محاذ پاکستان ایبٹ اباد،پاکستان تحریک شریعت پارٹی تخت بھائی مردان۔ عوامی ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان لوئر دیر شامل ہے۔

خواتین کے لئے عام انتخابات میں جنرل سیٹ پر ٹکٹ کی تقسیم کے حصول کا جائزہ لیا جائے تو الیکشن 2018 میں چند روز پہلے الیکشن کی مہم کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور امیدوار ہارون بلور ایک دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تو ان کی اہلیہ جو کہ ہاؤس وائف تھی نے ان کی سیٹ پر حلقہ پی کے 78پر ضمنی الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کراسمبلی کا حصہ بن گئیں۔ 1988 کے عام انتخابات میں جب اے این پی کے مرد جیلوں میں تھے اورسیا سی میدان میں کوئی مرد نہیں بچا تھا توبیگم نسیم ولی خان ن یہ میدان سنبھالا جن کا اپنا ایک خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ تھا۔ ان کا چارسدہ میں اپنا ووٹ بینک تھا اور ان کے خاندان کا نام تھا جس کی وجہ سے وہ اسمبلی کی رکن بن سکیں۔ ان کے علاوہ سال 2013 کے انتخابات میں حبیب الرحمن تنولی ایبٹ آباد سے قومی وطن پارٹی کے امیدوار تھے وہ وفات پا گئے تو ان کی بیٹی غزالہ حبیب نے جنرل الیکشن لڑا اور جیتا اورسوائے بیگمات کے کبھی کوئی کارکن خاتون رکن اسمبلی منتخب نہیں ہو سکی۔

الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 206 کے تحت سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عام نشستوں پر اپنے ٹکٹوں کا 5 فیصد خواتین کو دیں جس کا مطلب ہے کہ 20 میں سے کم از کم ایک ٹکٹ خواتین امیدوار کو دیا جائے۔ اس کے مطابق ضروری قرار دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں پانچ فیصد ٹکٹس خواتین کو دیں گی جس کے تحت سال 2018 کے انتخابات میں چند بڑی سیاسی جماعتوں نے خواتین کو ٹکٹس دیے جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا کی 8 خواتین کو ٹکٹس دیئے جنہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے پشاور ، دیر ، چارسدہ ،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان میں صوبائی اسمبلی کے لئے پانچ اور قومی اسمبلی کے لئے 3 خواتین شامل تھیں۔ این اے 23 پشاور کے لئے سابق رکن قومی اسمبلی طاہرہ بخاری ، این اے 27 پشاور کے لئے سابق ایم پی اے ثوبیہ شاہد اور این اے 7 دیر کے لئے بھی ثوبیہ شاہد کو ٹکٹ دیا گیا جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے لئے پی کے 98 ڈیرہ اسماعیل خان سے خورشید بی بی، پی کے 60 چارسدہ سے فرخ خان، پی کے 58 چارسدہ سے سمیرا اور پی کے 80 اور 82 کوہاٹ سے جمیلہ پراچہ کو عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ان خواتین کی خاندانی یا سیاسی رشتہ داریاں نہیں ہیں جن حلقؤں میں انہیں ٹکٹ دئیے گئے ان حلقوں میں ان خواتین کا مقابلہ ایم ایم اے کے امیدوار سراج الحق سے ،عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان ہوتی اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے تھا اور باقی میں بھی ان سیاسی جماعتوں کا ووٹ بنک ہی نہیں تھایہی وجہ ہے کہ تمام خواتین ہارگئیں۔

عوامی نیشنل پارٹی نے عام انتخابات میں خواتین کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے پانچ اور قومی اسمبلی کے لئے ایک ٹکٹ دیا۔ ایبٹ آباد اور ہری پور سے چھ خواتین کو ٹکٹس جاری کئے ہیں جن میں قومی اسمبلی کی نشست ہری پور17 کے لئے ارم فاطمہ جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں ایبٹ آباد 36 کے لئے روبینہ زاہد، 37 کے لئے رخسانہ بی بی، 38 کے لئے بی بی شہناز راجہ، ہری پور 40 کے لئے فرزانہ شاہین، اور 41 کے لئے سائرہ سید کو ٹکٹس دیئے گئے ہیں۔ ان خواتین کا سیاسی وخاندانی پس منظر یا سیاسی رشتہ داریاں نہیں رکھتی تھیں یہ بھی سیاست میں؛ سیاست؛ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

پاکستان تحریک انصاف گلالئی کی سربراہ عائشہ گلالئی نے بیک وقت خیبر پختونخوا، اسلام آباد، پنجاب اور سندھ سے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں کے لیے انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلم لیگ (ق)، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی )، پی ایس پی، پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر ایک، ایک خاتون نے انتخاب لڑا لیکن ان میں ایک خاتون بھی رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوئیں کیونکہ ان تمام نشستوں پر بھی خواتین کا مقابلہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سرکردہ سیاسی رہنمائوں سے تھا جو کہ یقینی طور پر اپنا سیا سی بیک گرائونڈ اور ووٹ بینک رکھتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف مختلف سیاسی پارٹیوں کی بہترین سیاسی شعور رکھنے والی خواتین اراکین انیسہ زیب، ڈاکٹر مہر تاج روغانی، زرین ضیا، معراج ہمایوں، شگفتہ ملک، نگہت اورکزئی، عظمیٰ خان، دینا ناز سمیت کئی خواتین جنرل نشست پر ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہیں جبکہ انکے جیتنے کی امید زیادہ تھی۔

سابق قبائلی اضلاع میں سال 2018 کے انتخابات میں۔ NA-46 قبائلی علاقہ جات (Vii) کرم ضلع سے علی بیگم خان نے عام انتخابات میں حصہ لیا جبکہ سابقہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہونے کے بعد 2019 میں ہونے والے قبائلی اضلاع کے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی نے ناہید آفریدی کو حلقہ پی کے 106 خیبر ٹو سے ٹکٹ دیا۔ اور پی کے 109 کرم ٹو سے ملاسہ نامی ایک خاتون امیدوار نے جماعت اسلامی کی ٹکٹ پرانتخاب میں حصہ لیا۔ جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے مسیحی برادری کی ثریا بی بی کو ضلع خیبر کی جنرل سیٹس پرٹکٹ دیا لیکن وہ کا میابی حاصل نہیں کر سکیں۔

الیکشن کمیشن سے آر ٹی آئی کے تحت لی گئی معلومات کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون امیدوار سمن بلور حلقہ پی کے78 میں ضمنی الیکشن میں براہ راست ووٹ حاصل کر کے اسمبلی کی رکن منتحب ہوئیں جو کہ 2018 میں واحد منتخب خاتون تھیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات 2018 میں خواتین کو جنرل نشستوں پر 5 فیصد ٹکٹ نہ دینے پر 6سیاسی جماعتوں کو شوکاز نوٹس جاری دیئے جن میں پیپلز پارٹی ،متحدہ مجلس عمل ،مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف نظریاتی ،تحریک لبیک اسلام ، پاکستان راہ حق کو نوٹس شامل ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو جاری کئے گئے شوکاز نوٹس واپس لے لیے۔ اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے سماعت کی ، مسلم لیگ (ن ) اور پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے وکیل ا لیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ چیف الیکشن کمشنر نے(ن) لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے عام انتخابات میں 666 ٹکٹ جنرل نشستوں پر دیئے ہیں، جس پر (ن) لیگ کے وکیل نے کہا کہ ہم نے 5فیصد سے زیادہ ٹکٹس خواتین کو دیئے ہیں ، چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل اور (ن) لیگ نے 5فیصد ٹکٹ دیئے ہیں اس لئے ان کے خلاف شو کاز نوٹس واپس ہو گیا ہے۔ سماعت کے دوران پی ٹی آئی نظریاتی کے وکیل نے کہا کہ قومی اسمبلی کے لئے ہمارے امیدوار صرف 11 تھے، جبکہ صوبائی نشستوں پر 17امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا ، الیکشن کمیشن نے (ن) لیگ اور پی ٹی آئی نظریاتی کے خلاف شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعداو شمار کے مطابق جنرل الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے ٹکٹس اور آزاد حیثیت سے میدان میں 2018 کے عام انتخابات میں 105 خواتین نے پارٹی ٹکٹ پر جبکہ 66 خواتین نے آزادانہ حیثیت سے حصہ لیا جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد 135 جبکہ پارٹی ٹکٹ پر انتخابات کا حصہ بننے والی خواتین کی تعداد 74 تھی۔ اسی طرح 2008 کے الیکشن میں کل 72 خواتین عام انتخابات میں شامل تھیں جن میں 41 خواتین پارٹی ٹکٹ اور 3 آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں کھڑی ہوئیں تھی۔

عورت فاونڈیشن پشاور کی پروگرام مینیجر صائمہ منیر کا اس حوالے سےکہنا ہے کہ مخصوس نشتوں پر خواتین کو لایا گیا تو یہ امید لگائی گئی تھی کہ خواتین میں سیاسی شعور اجاگر ہو گا وہ قانون ساز اداروں میں اپنا کردار ادا کر سکیں گی اور پھر وہ عام انتخابات میں بھی حصہ لے پائیں گی لیکن عملی طور پر شعور تواجا گر ہو گیا اور بھی بہت سارا کام ہو گیا لیکن جو ایک کام نہیں ہو پایا وہ عام انتخابات میں خواتین کارکنان کا پارٹی ٹکٹ پر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں آنے کا معاملہ ہے اس میں خیبر پختونخوا کی پوزیشن بالکل صفر ہے۔

الیکشن میں خواتین کی شمولیت کو بہتر بنانے کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم حوا لور کی چیئر پرسن خورشید بانو کے مطابق پاکستانی سیاست میں سرگرم، روایتی سیاسی خاندان اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کو الیکشن میں آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں اور خواتین کے معاملے میں بھی یہی صورت حال ہے بلکہ زیادہ خراب حالات ہیں خواتین ورکرز پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاتا۔ انہیں کسی ووٹ بنک والی سیٹ پر ٹکٹ دینا ضائع کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کا معاشرتی ماحول بھی ایسا ہے کہ خواتین کی حاکمیت، یا اسے اپنے کسی کام کا کہنے یا اسے اپنے سے برتر سمجھتے ہوئے اور اہمیت دیتےہوئے ووٹ دینے کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ پدر شاہی ماحول کے پی میں زیادہ ہ مرد عام طور پر یہ سمجھتے ہیں یہ بیچاری عورت ہے ہمارے لیے اور ملک کے لیے کا کام کر سکیں گی؟

سیاسی تجزیہ نگار اور سینئر صحافی سلطان صدیقی کا کہنا ہے کہ عام طور پر بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا پارلیمانی بورڈ ان درخواستوں کو شارٹ لسٹ کرکے امیدواروں سے بات چیت کرتا ہے۔ کچھ جماعتیں ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے کئی اہم حلقوں میں سروے بھی کرواتی ہیں۔ ٹکٹ دینے کے آخری مرحلے میں پارٹی قیادت پارلیمانی بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ٹکٹ دینے کا حتمی فیصلہ کرتی ہے اورخواتین کو پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک عام طور پر کسی مقام پر شامل ہی نہیں کیا جاتا تو پھر ان کے لیے انکے مردجو فیصلے کرتے ہیں وہی انہیں قبول کرنے پڑتے ہیں۔ انتخابات فروری 2024کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواران کا اعلان کردیا ہے صوبائی اسمبلی کے لیے6 اور قومی اسمبلی کے لیے1 خاتون کو شامل کیا گیا ہے جن میں خدیجہ بی بی این اے 1 (چترال) سے اور صوبائی اسمبلی میں شہناز راجہ پی کے 42 (ایبٹ آباد) سے ، ارم فاطمہ پی کے 47 (ہری پور) سے پی کے 46 (ہری پور ) سے فرازیہ شاہین ،شاہین ضمیر پی کے 40 (مانسہرہ) سےفرازیہ شاہین ثمن بلور پی کے83 (پشاور )سے شگفتہ ملک پی کے 73 (پشاور) سے شامل ہیں۔

واضح رہے کہ انتخابی عمل میں خواتین کی بھرپور شرکت کے لیے ۲۰۱۷ میں اتخابی اصلاحات کی گئیں اور انتخابی قانون 2017 بنایا گیا جس کے تحت سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں 5فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی پابند ہوں گی۔انتخابی حلقے میں خواتین کے کم از کم دس فیصد ووٹ پول ہونا بھی لازمی ہو گا اور ایسا نا ہونے کی صورت میں وہاں الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گا۔ ان قوانین پر عمل در آمد کے حوالے سے الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا کے ترجمان محمد سہیل نے کہا کہ سال 2018 کے انتخابات کے لیے الیکشن کمشن نے بھر پور اقدامات کیے۔ ایکٹ کے مطابق خواتین کے ووٹوں کی رجسٹریشن اور انتخابات میں ان کی شرکت کے حوالے سے میڈیا مہم، ایک حلقہ میں خواتین اور مرد ووٹروں کے درمیان فرق 10فیصد سے کم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے،پریذائیڈنگ آفیسر ہر پولنگ سٹیشن پر خواتین اور مرد ووٹو ں کا تناسب پیش کرنے کا پابندقرار دیا اوراس پر عمل در آ مد کرتےہوئے خیبر پختونخوا میں پی کے۲۳(تئیس)شانگلہ ون میں شوکت علی یوسفزئی کے حلقے میں خواتین کے ووٹ کل ڈالے گئے ووٹوں کے 10فیصد سے کم ہونے کے باعث دوبارہ الیکشن کیا گیا۔ ان اقدامات ا، اصلاحات قانون سازی کا مقصدملک کی نصف آبادی کی انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کو یقینی بنانا تھا اور چونکہ یہ تمام فیصلے قانون کا حصہ ہیں اس لیے فروری ۲۰۲۴ کے انتخا بات میں بھی ان پر عمل در آمد ہوگا۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button