کیا کراچی کے پشتون قوم پرست نہیں رہے؟
محمد فہیم
عام انتخابات میں سب سے بڑی نمائندگی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے آتی ہے۔ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق 55 لاکھ سے زائد پشتون آباد ہیں اور انہیں پشتونوں کے ووٹ کو حاصل کرنے کیلئے متحدہ قومی موومنٹ نے پشتونوں کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں جب پشتون امیدوار ایم کیو ایم نے میدان میں اتارے ہیں۔ کراچی میں پشتونوں کی بڑی آبادی کو اپنے حق میں کرنے کیلئے کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے کوششیں شروع کردی ہیں تاہم پشتون کس بنیاد پر ووٹ دینا چاہتے ہیں یہ کراچی کے پشتون ہی بہتر جانتے ہیں۔
سینئر صحافی اور کراچی میں دی نیوز انٹرنیشنل سے وابستہ ارشد یوسفزئی کہتے ہیں کہ پشتون اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ اگر وہ کسی دیرپا اور مضبوط جماعت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو ان کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ پشتون جن مقامات پر رہتے ہیں ان جگہوں اور دیگر جگہوں کا موازنہ کیاجائے تو ان مقامات کی ترقی میں بڑا فرق ہے۔ کئی پشتون یہ سمجھتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ ہمیشہ اقتدار میں رہتی ہے اگر پشتون ان کیساتھ کھڑی ہوجائے تو ممکن ہے کہ پشتونوں کے مسائل کم ہوجائیں۔ پشتون یہاں مزدوری کیلئے آئے تھے لیکن اب وہ یہاں آباد ہوگئے ہیں جن کے مسائل مختلف ہیں۔
ایم کیوایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی بڑے شہروں میں پشتون اور بلوچ سمیت تمام زبانیں بولنے والوں کو حقیقت سمجھتے ہیں اور ان کے حق کیلئے بات بھی کرتے ہیں۔ ارشد یوسفزئی کہتے ہیں کہ پشتونوں کی نمائندہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جماعت سکڑ گئی اور اب صرف شاہی سید تک یہ جماعت رہ گئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی ایک وارڈ بھی نہیں جیت سکی ہے۔ پیپلز پارٹی مخالف اتحاد بننے کی کوشش میں جمعیت، جی ڈی اے اور ایم کیوایم کے وفد نے مردان ہاﺅس میں عوامی نیشنل پارٹی کے وفد سے ملاقات کی تاہم شاہی سید نے صرف اور صرف اپنی نشست پر امیدوار کھڑا نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو واضح کرتا ہے کہ پشتون رہنما صرف اپنی بقا کیلئے سرگرم ہیں۔
پشتونوں کی نمائندگی صرف عوامی نیشنل پارٹی تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ ایم کیو ایم سمیت جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے نہ صرف بڑی تعداد میں پشتون امیدوار میدان میں اتارے ہیں بلکہ انہیں ایوان میں بھی نمائندگی ملی ہے۔ پشتون علاقوں کی حلقہ بندی پر بھی کئی بار اعتراض اٹھایا گیا جس میں کہا گیا کہ مہاجر اپناحلقہ ایک ساتھ بنالیتے ہیں جبکہ پشتونوں کا علاقے تین حلقوں میں تقسیم کردیاجاتا ہے تاہم پشتون کسی ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ کن ووٹ نہ ڈال سکیں۔ ان تمام مسائل پر عوامی نیشنل پارٹی نے آواز بلند کی ہے لیکن وہ آواز مؤثر آواز ثابت نہیں ہوسکی ہے۔
ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کی طلباء تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کراچی ساﺅتھ میں جنرل سیکرٹری رہنے والے اور موجودہ سینئر صحافی عزیز بونیری کہتے ہیں کہ مسائل بہت زیادہ ہیں جن کا ادراک عوامی نیشنل پارٹی کو نہیں ہے۔ ایم کیو ایم نے پہلے بھی پشتونوں کو ٹکٹ دیا تھا اور اب بھی دے رہی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ پشتون ووٹ انتہائی اہم ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی 2008 کے عام انتخابات میں امیر نواب اور امان اللہ خان محسود کامیاب ہوئے تھے جس میں امیر نواب کو محکمہ محنت کی وزارت بھی دی گئی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ پشتونوں کیلئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرسکے۔ اسی طرح شاہی سید 6 سال تک سینیٹ کے ممبر رہے لیکن ان کی کارکردگی بھی مثالی نہیں رہی ہے۔ عزیز بونیری کہتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام قوم پرست جماعتوں کا اب قوم کے نعرے سے نکل کر کارکردگی کی بات کرنی ہوگی۔ انہیں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو پشتونوں کے مسائل کی نشاندہی بھی کرنی ہوگی اور اس کا حل بھی تجویز کرنا ہوگا کیونکہ صرف پارٹی کا قوم پرست ہونا پشتون ووٹر کو شائد اب راغب نہیں کرسکے گا۔