سیاست

"خواہش ہے انتخابی عمل میں خواتین کا برابر حصہ ہو”

 

مصباح الدین اتمانی

"آگاہی مہم کے دوران ایک پانچ بچوں کی ماں نے آ کر کہا کہ وہ ووٹ پول کرنا چاہتی ہے لیکن اُس کا شناختی کارڈ نہیں بنا کیونکہ اُن کے خاندان کے مرد اُن کے ساتھ نادرا دفتر جانا معیوب سمجھتے ہیں۔” یہ کہنا تھا پشاور سے تعلق رکھنے والی شہلا کا جو پچھلے دو مہینوں سے یہاں کے مضافاتی علاقوں میں خواتین کے انتخابی عمل میں شرکت اور اِس کی اہمیت کے حوالے سے اگاہی مہم چلا رہی ہیں۔

شہلا اپنی ٹیم کے ساتھ مختلف علاقوں اور تعلیمی اداروں میں جاتی ہیں اور وہاں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے، انتخابی عمل میں حصہ لینے اور اپنی مرضی سے ووٹ استعمال کرنے کی تلقین کرتی ہیں تاکہ وہ سیاسی اور انتخابی عمل میں خواتین کی کم شرح کو بڑھا سکے۔

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی ویب سائٹ پر موجود 2023 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 24 کروڑ، 14 لاکھ 99 ہزار 431 ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی کل آبادی 4 کروڑ 8 لاکھ 56 ہزار 97 ہے۔

2018 کے عام انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ 40 فیصد رہا تھا جبکہ دو حلقوں میں ٹرن آوٹ دس فیصد سے بھی کم تھا جس کے بعد وہاں دوبارہ الیکشن کروانے کے احکامات جاری ہوئے تھے۔

شہلا نے اِس حوالے سے بتایا: "میں دس دس، بارہ بارہ اور بیس بیس خواتین کے گروپس بناتی ہوں۔ پھر انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہوں۔ میں متھرا گئی تو وہاں زیادہ تر خواتین کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں تھے۔ اب ہم نے اُن کے لیے نادرا موبائل وین کا بندوبست کیا ہے جو اُن کے علاقوں میں جا کر اُن کے لیے شناختی کارڈز بناتے ہیں۔”

شہلا کے مطابق زیادہ تر خواتین کو نہیں پتہ کہ وہ ووٹ کیوں استعمال کرتی ہیں، اور جن کو پتہ بھی ہے تو وہ ووٹ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خاندان کے سربراہ (مرد) کی خواہش کے مطابق استعمال کرتی ہے: "میں مہم کے دوران مرد اور خواتین کو بتاتی ہوں کہ ووٹ اپنی مرضی سے استعمال کرنا ہر انسان کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ میں پچھلے 12 سال سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہوں جبکہ میرا شوہر عوامی نیشنل پارٹی کا سپورٹر ہے لیکن ہم ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔”

الیکشن کمیشن کے مطابق 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 تھی۔ اب یہ تعداد 12 کروڑ، 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے۔ اس فہرست میں مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 92 لاکھ 63 ہزار 704 ہے اور خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56 ہے۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 19 لاکھ 28 ہزار 119 ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 19 لاکھ 44 ہزار 397 یعنی 54.47 فیصد ہے اور خواتین ووٹرز کی تعداد 99 لاکھ 83 ہزار 722 ہے جو 45.53 فیصد بنتا ہے۔

متھرا کی 35 سالہ شازیہ ایک گھریلو خاتون ہے اور پہلی بار انتخابات کے حوالے سے منعقدہ ایک آگاہی سیمینار میں شریک ہوئی ہے۔ کہتی ہے: "یہاں خواتین ووٹ استعمال نہیں کرتیں۔ مرد اُن کو گھر میں بیٹھنے کا کہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کو ووٹ پول کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”

انتخابی عمل کے حوالے سے آگاہی مہم کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے شازیہ نے بتایا کہ اس سے خواتین میں ایک امید پیدا ہو گئی ہے۔ اُن کو پتہ چل گیا ہے کہ اپنی مرضی سے ووٹ استعمال کرنا اُن کا حق ہے۔ یہاں تو کچھ لوگ ووٹ کو ہی حرام قرار دیتے تھے: "اپنی 35 سالہ زندگی میں پہلی بار آنے والے انتخابات میں اپنا ووٹ پول کروں گی۔”

2017 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بنائے گئے قانون کے مطابق انتخابات کے دوران کسی بھی حلقے میں پول کیے گئے ووٹوں میں اگر خواتین کے ووٹوں کا تناسب 10 فیصد نہ ہوا تو اُس حلقہ کے نتائج قبول نہیں کیے جائیں گے۔ اِس قانون کے تحت الیکشن کمیشن نے 2018 کے عام انتخابات میں خواتین کے 10 فیصد سے کم ووٹ پول ہونے پر خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 23 شانگلہ میں انتخابات کالعدم قرار دے کر وہاں دوبارہ انتخابات کروائے تھے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نائلہ الطاف طوری نے انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت اور آگاہی کی کمی کے حوالے سے بتایا کہ قبائلی اضلاع اور پسماندہ علاقوں میں ووٹنگ کا عمل مردوں کے زیراثر رہتا ہے۔ وہ پہلے خواتین کو ووٹ پول کرنے نہیں دیتے، اور اگر اجازت دے بھی دیتے ہیں تو وہ اپنے مرد کے من پسند امیدوار کو ووٹ دیں گی۔

نائلہ کے مطابق خواتین کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہی ووٹ استعمال کر کے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں اور پھر یہی لوگ ہی اُن کے مستقبل کے حوالے سے قانون سازی کرتے ہیں۔

نائلہ نے انتخابی عمل میں خواتین کی کم شرکت کی ایک بڑی وجہ سخت رسم و رواج کو قرار دیتے ہوئے بتایا کہ پسماندہ علاقوں میں مرد یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ جہاں مرد ہوں وہاں خواتین بھی جائیں: "اگر ہم چاہتے ہیں کہ خاتون ووٹنگ کے عمل میں آگے آئیں تو ہمیں اُن علاقوں کے لوگوں کے پاس جانا ہو گا اور انہیں تمام سہولیات فراہم کرنی ہوں گی تاکہ خواتین کی پولنگ اسٹیشن تک رسائی ممکن اور آسان بنائی جا سکے۔

نائلہ الطاف طوری کے مطابق یہاں پچاس فیصد آبادی خواتین کی ہے، اگر وہ اِس عمل میں برابر حصہ نہیں لے گی تو پھر اِس جمہوریت اور الیکشن کا کیا معیار رہ جائے گا؟

الیکشن کمیشن کے مطابق فاٹا مرجر کے بعد قبائلی اضلاع کے 16 صوبائی حلقوں میں مجموعی ٹرن آوٹ 26.27 فیصد رہا تھا۔ سب سے زیادہ ٹرن آوٹ پی کے 109 ضلع  کرم میں 40.10 فیصد رہا جبکہ سب سے کم ٹرن آوٹ پی کے 113 شمالی وزیرستان میں 16.10 فیصد رہا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مرد ووٹرز کا مجموعی ٹرن آوٹ 31.42 فیصد رہا تھا جبکہ خواتین ووٹرز کا مجموعی ٹرن آوٹ 18.63 فیصد رہا۔

مولانا خانزیب عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صوبائی ورکنگ کمیٹی کے ممبر اور باجوڑ کے حلقے این اے 8 سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو سیاسی اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کا حق اسلام آئین اور ہمارے روایات نے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی اس عمل میں خواتین کی شرکت یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، مولانا خانزیب کے مطابق این اے ون سے عوامی نیشنل پارٹی کی امیدوار ایک خاتون ہے، ہم مختلف اضلاع میں خواتین کی سیاسی عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے اگاہی سیمینارز منعقد کرتے ہیں، خواتین کی حقوق کا تحفظ پارٹی کی منشور کا باقاعدہ حصہ ہے۔

ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے پشاور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا شمشاد خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی اور خودمختار ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری ملک میں شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات منعقد کرانا ہے۔ شمشاد خان نے بتایا کہ ٹرن آوٹ بڑھانے کے لیے ریجنل الیکشن کمشنرز اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کی زیرنگرانی صوبہ بھر میں سیمینارز اور تقاریب منعقد کروائے گئے ہیں۔

شمشاد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن صنفی فرق کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے منع کرنا قانوناً جرم ہے: ”خیبر پختونخوا میں مرد ووٹرز کی تعداد خواتین ووٹرز سے 20 لاکھ زیادہ ہے، اور اِس فرق کو ختم کرنے کی غرض سے آگاہی مہم پر کام جاری ہے۔”

انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار ایلیکٹورل سسٹم  اور نادرا کے تعاون سے خیبر پختونخوا میں خواتین اور دیگر محروم طبقات کے شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹ رجسٹر کروانے کی خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر پرامید ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد گذشتہ الیکنشز سے زیادہ ہو گی۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button