پرویز خٹک کی نئی سیاسی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟
محمد فہیم
سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 17 جولائی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کے بعد اپنی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین کی بنیاد رکھی ایک ہی روز اس جماعت میں اڑھائی درجن سے زائد سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے شمولیت کرلی جبکہ پارٹی کے چیئرمین پرویزخٹک خود اور نائب چیئرمین محمود خان کو مقرر کردیا گیا۔ پارٹی شروع کرنے کے بعد سے اب تک پرویز خٹک نے کئی جلسے اور ورکرز کنونشن کئے ہیں تاہم ان کی جانب سے اب تک کوئی قابل ذکر جلسہ نہیں کیا جاسکا ہے۔
اسلام آباد میں ڈان نیوز سے وابسطہ سینئر صحافی عبداللہ مہمند کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی سیاست اس وقت غیر یقینی ہے امید کی گئی تھی کہ پرویز خٹک اس صوبے میں بڑا دھچکا پی ٹی آئی کو دینے میں کامیاب ہونگے لیکن ابھی تک ایسا ہوتا ہوا ممکن نظر نہیں آرہا جس کے باعث پرویز خٹک خود بھی پریشان ہیں اور مقتدر حلقے بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک دراصل عمران خان کا ووٹ لینا چاہتے ہیں لیکن عمران خان کی مخالفت کرکے ووٹ لینا آسان نہیں ہوگا۔
عبداللہ مہمند کے مطابق پرویز خٹک ایک حلقہ یا ایک ضلع تک بہترین کارکردگی دکھا سکتے ہیں لیکن اپنے بل بوتے پر صوبہ جیتنا ان کے بس کی بات نہیں ہے 25 سال تک وہ نوشہرہ خصوصا مانکی شریف تک محدود تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں پہلے صوبے اور بعد میں مرکزی سطح پر پہچان پی ٹی آئی اور عمران خان کی مرہون منت ملی ان سے یہ امید کرنا کہ وہ سیاسی جماعت بنا کر اسے کامیاب بنا لیں گے یہ شائد ممکن نہ ہو۔
پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین نے اپنا پہلا جلسہ 19 اگست کو نوشہرہ میں کیا یہ پرویز خٹک کا ہوم گراﺅنڈ تھا سیاسی مبصرین اس جلسے سے زیادہ مطمئن نہیں تھے تاہم پرویز خٹک اور ان کی پارٹی نے بھرپور اطمینان کا اظہار کیا اس جلسے کے بعد مانسہرہ، کوہستان، سوات، کوہاٹ، پشاور، ڈی آئی خان اور بنوں میں جلسے اور ورکرز کنونشن منعقد کئے چند مقامات پر عوام اور ورکرز موجود تھے جبکہ کئی پروگرامز میں خالی کرسیاں منہ چڑاتی نظر آئیں۔
بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے منسلک سینئر صحافی نذر الاسلام کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کے پاس نعرہ نہیں ہے وہ خود 5 سال وزیر اعلیٰ رہے اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے محمود خان ساڑھے 4 سال وزیر اعلیٰ رہے اس کے بعد بھی جب وہ وعدہ کرتے ہیں کہ کامیاب ہوکر بڑے کام کرجائیںگے تو سوال یہی بنتا ہے کہ گزشتہ 10 سال تک کیا کرتے رہے؟ پرویز خٹک کبھی بھی عوامی مقبولیت نہیں رکھتے تھے اس لئے ان سے بڑے بڑے جلسوں کی امید رکھنا درست نہیں ہے۔
نذر الاسلام کے مطابق پرویزخٹک صرف خیبر پختونخوا کی حد تک محدود ہیں اور اس صوبے کے عوام اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کی حمایت کرتے ہیں اگر ماضی میں دیکھا جائے تو جب تک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے تو بیشتر ضمنی انتخابات وہ ہار گئے تھے اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پی ٹی آئی ختم ہوگئی ہے لیکن جیسے ہی عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا تمام نتائج یکسر مختلف ہوگئے، پرویز خٹک کیلئے سب سے بڑا چیلنج اب ووٹ حاصل کرنا ہے صرف یقین دہانی وزیر اعلی بننے کیلئے کافی نہیں ہے انہیں پہلے اپنی نشست جیتنی پڑے گی اور بعد ازاں باقی امیدواروں کی جیت کیلئے بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔
عام انتخابات سے قبل تین بار کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف واپس آگئے ہیں اور ان کی واپسی مینار پاکستان میں ایک بڑے جلسے کی صورت میں آئی ہے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں جمعیت علماءاسلام نے اپنی انتخابی مہم مفتی محمود کانفرنس سے شروع کی ہے جس کیلئے انہوں نے پشاور میں بے نظیر ہسپتال کے پلاٹ کا انتخاب کیا پرویز خٹک صوبے میں کسی بھی مقام پر ایسا جلسہ نہیں کرسکے ہیں جو پارٹی قیادت اور پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔