باجوڑ میں بلدیاتی نظام غیر مؤثر، وجہ حکومتی عدم دلچسپی یا کچھ اور؟
بلال یاسر
حاجی محسن خان پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر وی سی 40 سیوئ سے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے الیکشن کمپین پر کم و بیش 14 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی تاہم الیکشن جیتنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ بلدیاتی ایکٹ 2013 کا ایک شق بھی اب ان کے ماتحت نہیں۔
ان کے بقول ان کے وی سی میں نکاح نامے اور برتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کے علاوہ اور کوئ ذمہ داری نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے علاقے کے لیے بہت کچھ کرنے کا سوچ کر میدان میں اترے تھے مگر اب ان کے پاس کوئی اختیار نہیں، نہ دفتر، نہ میٹنگ، نہ کوئی ذمہ داری جس کی وجہ سے وہ اس سسٹم سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو۔ میں کافی عرصے قبل وزٹ کے ویزے پر سعودی عرب آیا ہوں مگر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے وی سی میں کرنے کو میرے ذمے کوئی کام پیش نہ آیا۔
ملک ضیاء الاسلام وی سی 13 ڈمہ ڈولہ ماموند سے قبائلی اضلاع میں پہلی بار منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر چیئرمین منتخب ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوچ کر اس الیکشن میں حصہ لیا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوجائیں گے اور ہم چونکہ علاقائی سطح پر سیاست کرتے ہیں ہمیں علاقائی مسائل و مشکلات کا زیادہ علم ہے اس لیے ہم زیادہ بہتر انداز میں عوام کی خدمت کرسکیں گے لیکن ارباب اختیار نے ہمیں بہت زیادہ مایوس کیا۔ ہمیں آج تک اپنے اختیارات کا پتہ نہ چل سکا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دیگر چیئرمین ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ علاقے میں لوگ ہم سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں لیکن ہمارے پاس کرنے کو کچھ ہے نہیں اور نہ ریاست اس کو کرنے کے لیے تیار ہے تو ہمیں سائڈ لائن ہونا پڑے گا۔
قبائلی امور پر نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی نے اس حوالے سے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ جب 2013 میں بنایا گیا تو اس کے پاس 23 محکمے تھے۔ پھر یہ محکمے آہستہ آہستہ کم کرتے گئے 2018 تک اس کے پاس 17 محکمے رہ گئے۔ 2018 میں پی ٹی آئی حکومت نے جب صوبے میں حکومت سنبھالی تو اس وقت منسٹر شہرام خان ترکئی نے اس کے بالکل پر کاٹ دیئے اور لوکل گورنمنٹ کے تحت صرف 7 محکمے چھوڑ دیئے اور لوکل گورنمنٹ کے سٹرکچر میں ضلعی حکومتیں ختم کردی گئی جو کہ نہایت پاور فل تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کی جگہ تحصیل لیول پر ان کی حکومتیں قائم کردی گئیں۔ اس وجہ سے حلقہ بندیوں، نوٹیفیکیشن وغیرہ میں یہ بے اختیار بنا دیئے گئے جس کے وجہ سے اس کا مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔
انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی علاقوں میں اس نظام کے ثمرات حاصل نہ ہونے کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ منتخب بلدیاتی نمائندگان کو بااختیار نہیں بنایا گیا اور نئے چہروں کو موقع نہیں دیا گیا۔ قبائلی عوام کی زیادہ توقعات اس نظام سے وابستہ تھی مگر صوبائی حکومت اور ان اضلاع میں تعینات کچھ آفسران کی وجہ سے یہ نظام نہیں چل سکا۔ انہیں فنڈز نہیں مل رہے جس کی وجہ سے اب لوگ بد ظن ہورہے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں جس وقت لوکل گورنمنٹ کے انتخابات منعقد ہوئے اس وقت کے برسر اقتدار پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ فیصل آمین خان نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف ہی وہ جماعت تھی جس نے بلدیاتی سسٹم کو فعال بنایا اور طویل عرصے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا، جن میں قبائلی اضلاع میں تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات بھی شامل تھے مگر بدقسمتی سے بعد کی پی ڈی ایم حکومت نے ان کو فنڈز نہیں جاری کیے جس کی وجہ سے سسٹم نہیں چل سکا۔ صرف پی ٹی آئی کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا۔
بلدیاتی امور کے ماہر اور میئر مردان حمایت اللہ مایار نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ بلدیاتی انتخابات دو مرحلوں میں منعقد ہوئے جن میں اس وقت کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے مخالف اپوزیشن پارٹیوں کے امیدواران نے کامیابی حاصل کی۔ ان نتائج کے بعد پی ٹی آئی گورنمنٹ نے مقامی لوکل گورنمنٹ حکومتوں کے نظام میں تبدیلی لاتے ہوئے انتظامی اور مالی اختیارات میں کمی لائی جس کہ وجہ سے مقامی لوکل گورنمنٹ حکومتیں کمزور پڑ گئیں۔ ان کے اختیارات ایکٹ سے نکال کر اسے رولز آف بزنس میں ڈال دیا۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے صوبائی حکومت نے مقامی لوکل گورنمنٹ حکومتوں کے مالی اختیارات میں کمی لاتے ہوئے ان کو سالانہ ترقیاتی فنڈ میں ملنے والا تیس فیصد حصہ کم کرکے بیس فیصد کردیا اور اس کو اپنے مرضی کے ماتحت کردیا۔ لوکل ملنے والے گرانٹ بھی بند ہوگئے۔
قبائلی علاقوں کے لوگوں کو اس سے بہت زیادہ توقعات تھے انہوں نے گرم جوشی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کے لیے نہ تو دفتر ہے نہ دفتر چلانے کیلئے کچھ ذرائع ۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ یہاں انتخابات سے قبل میئر، چیئرمین اور دیگر منتخب نمائندگان کے لیے دفاتر اور سیٹ اپ بنایا جاتا مگر ایسا کچھ نہیں جس کی وجہ سے اس سسٹم سے لوگ متنفر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کو ناکام کرنے میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائندگان برابر کے شریک ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ اختیارات ان سے نچلی سطح تک منتقل ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک مقامی لوکل حکومتیں مضبوط نہیں ہوتی تب تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، مقامی حکومت تک ہر کسی کی رسائی با آسانی ہوسکتی ہے۔