سیاست

پرویز خٹک کی نئی سیاسی جماعت پختونخوا سے پی ٹی آئی کا وجود ختم کرسکتی ہے؟

کیف آفریدی

پاکستان تحریک انصاف کے دوسرے درجے کی قیادت اور کارکنان کی گرفتاری کے بعد سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا عمل جس ڈرامائی انداز میں جاری ہے اس کے تحت مرکزی قیادت سے لے کر صوبوں کی سطح پر ایک ایک رہنماء پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما او سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے اپنی پارٹی کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی نئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی پارلمینٹرین کے ساتھ 57 قومی اور صوبائی ممبران کی حمایت حاصل ہے جس میں کئی رہنماؤں کی جانب سے پرویز خٹک کے ان دعویٰ کی تردید ہوئی ہے۔

گزشتہ روز پشاور کے ایک نجی شادی ہال میں ہونے والی ایک بڑی بیٹھک میں سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سمیت بڑے بڑے عہدیدار ان کے ساتھ موجود تھے۔ کیا خیبر پختونخوا میں واقعی پی ٹی آئی ختم ہو رہی ہے؟ اس حوالے سے ہم نے سینئر صحافیوں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ اگر دیکھا جائے تو 2021 اور 2022 میں خیبر پختونخوا میں جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے اس میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

ان کے بقول موجودہ صورتحال میں بھی، میرے خیال میں، اس صوبے میں عمران خان 70 فیصد مقبول ہیں یعنی اگر شفاف اور غیرجانبدارانہ الیکشن ہوئے تو عمران خان صوبائی اسمبلی کی 70 سے زیادہ سیٹیں جیت جائیں گے تاہم اگر عمران خان یا ان کی پارٹی پر پابندی عائد ہوئی تو پھر رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔

پرویز خٹک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پرویز خٹک کو تیار شوربہ ملا ہے لیکن عمران خان جب تک میدان میں ہوں گے تب تک پرویز خٹک پی ٹی آئی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے یعنی خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی نئی پارٹی بھی پی ٹی آئی کا کچھ نہیں کر سکتی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لحاظ علی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا اس صوبے میں اپنا ایک مقام ہے، کثیر تعداد میں یہاں اس کے ورکرز ہیں اور وہ اپنے قائد عمران خان کو ماننے والے ہیں۔ ان کے ووٹرز عمران خان کے لیے لڑنے حتیٰ کہ مرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پرویز خٹک بھی عمران خان کا کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی مقبول ترین پارٹی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس صوبے میں دوسرے نمبر پر جمعیت علما اسلام پارٹی ہے جو اپنا ایک مقام رکھتی ہے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں پر بھی جے یو آئی نے پی ٹی آئی کا ووٹ نہیں کاٹا بلکہ باقی سیاسی جماعتوں کا ووٹ کاٹا ہے جیسا کہ اس پارٹی کی سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے۔

اسی طرح تیسرے نمبر پر عوامی نیشنل پارٹی ہے جو صوبے میں اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ باقی پاکستان پیپلز پارٹی تقریباً اس صوبے سے ختم ہو چکی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ ساری جماعتیں پی ٹی آئی کے مقابلے میں پھر بھی کانٹے کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور یوں عمران خان اس صوبے سے 70 سے زیادہ نشتیں لینے میں باآسانی کامیاب ہو جائیں گے پر یہ تب ممکن ہو گا جب عمران خان اور ان کی جماعت پر پابندی نہ لگے۔

خیبر پختونخوا کی سیاست کے حوالے سے بین الاقوامی اور نیشنل نیوز اداروں سے منسلک رہنے والے سینئر صحافی، محمود جان بابر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اب تک جیسے بھی حالات ہیں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بہتر نظر آ رہی ہے۔ یہ اس وقت تک ہے جب تک عمران خان نااہل نہ ہوں اور پاکستان تحریک انصاف پر پابندی نہ لگے۔ اسی طرح پرویز خٹک کے جانے اور ان کی اپنی جماعت بنانے سے بھی عمران خان پر کچھ اثر نہیں پڑے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویز خٹک صرف نوشہرہ تک محدود ہے اور وہ پورے صوبے پر نظرانداز نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک کو صرف ایک بڑی پوزیشن حاصل تھی۔ عہدے کے لحاظ سے اور ایک سینئر سیاستدان ہونے کے ناطے دیگر جماعتوں والے پرویز خٹک کی بات بھی مانتے تھے لیکن جب عمران خان موجود ہوں تو پرویز خٹک کی کوئی حیثیت نہیں اسی لیے خیبر پختونخوا میں ابھی تک عمران خان پاور میں ہیں اور پرویز خٹک ان کا کچھ نہیں کر سکتے۔

خیبر پختونخوا میں پچھلے کئی دنوں سے گورنر حاجی غلام علی کے بارے میں اتحادی پارٹیوں کی جانب سے گلے شکوے سامنے آ رہے ہیں۔ آیا غلام علی جمعیت کو صوبے بھر میں فعال کر دیں گے، اس سوال پر محمود جان بابر نے کہا کہ گونر غلام علی پشاور کی حد تک اپنی پارٹی کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں جیسا کہ وہ الیکشن جیتنے کے لیے تمام طریقے استعمال کرتے ہیں۔ وہ دینی رہنما نہیں تو اس لیے وہ پیسوں کا استعمال اور ساتھ ساتھ لوگوں کے پاس جا کر انہیں قائل کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

گورنر ہاؤس کا فائدہ غلام علی خوب لے رہا ہے کیونکہ دوسری پارٹیوں کے پاس اس طرح کا پلیٹ فارم نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بلا کر اپنی طرف قائل کر سکیں۔ ان کے ساتھ ملنا اور گورنر ہاوس کا فائدہ اٹھانا غلام علی نے کر کے دکھایا ہے، لیکن یہ سب غلام علی کسی حد تک کر سکتے ہیں البتہ صوبے میں بڑے مارجن سے پارٹی کو فعال کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے فی الحال، محمود جان نے بتایا۔

صحافی محمود جان بابر نے مزید کہا کہ گونر غلام علی میرے خیال میں اس چکر میں ہوں گے کہ وہ خود خیبر پختونخوا کے وزیراعلی بنیں یا اپنے بیٹے کو بنا لیں، جو اس وقت میئر پشاور ہیں، پر جمعیت میں اگر مولانا فضل الرحمان یا اکرم خان درانی اپنے اپنے بیٹوں کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلی بنانے کے چکر میں ہوں تو پھر گورنر غلام علی کی یہ کوشش نہیں ہو گی جیسے وہ اپنے یا بیٹے کے لیے کرتے ہیں۔ اس طرح ماضی میں بھی ہوا ہے، لیکن یہ سب تب ممکن ہو گا جب پی ٹی آئی اور عمران خان پر پابندی لگے۔

خیال رہے کہ پچھلے کئی دنوں سے خیبر پختونخوا میں سیاسی گرما گرمی جاری ہے۔ کوئی پی ٹی آئی چھوڑ کر پرویز خٹک کے ساتھ شامل ہو رہا ہے تو کوئی مسلم لیگ ن کے قافلے میں سوار ہو رہا ہے۔

حال ہی میں ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے پارلمنٹیرین الحاج شاہ جی گل آفریدی اور ان کے خاندان والے مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے جن میں ان کا بھائی، جو سابقہ سینیٹر تھا، اور 2 سابقہ صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی شامل تھے۔

اسی طرح پرویز خٹک بھی اپنی نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کر چکے ہیں اور اپنے ساتھ کئی سابقہ ممبران شامل کرنے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں تاہم الیکشن آنے پر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کی مدت 14 اگست کو ختم ہونے والی ہے جس کے بعد نگران حکومت آئے گی اور الیکشن کمیشن 2 ماہ بعد عام انتخابات کا اعلان کرے گا۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button