سیاست

بجٹ 24-2023: عوام کے لیے اس بجٹ میں کیا خاص ہے؟

محمد فہیم

وفاقی حکومت نے سالانہ 14 ہزار 460 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کردیا۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ آئندہ مالی سال کا بجٹ گزشتہ مالی سال سے 4 ہزار 958 ارب روپے زیادہ ہے یعنی بجٹ کا حجم ایک سال کے اندر اندر 34 فیصد بڑھ گیا جو ایک تہائی سے بھی زائد ہے۔

آئندہ مالی سال میں بجٹ اخراجات پورے کرنے کیلئے تمام بوجھ ٹیکسز پر ڈال دیا گیا ہے جہاں گزشتہ برس کل بجٹ ہی 9 ہزار 502 ارب تھا جبکہ آئندہ برس اکٹھا کرنے کیلئے ٹیکس کا ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو براہ راست ٹیکس وصولی 3 ہزار 759 ارب روپے کی کریگا جبکہ بالواسطہ ٹیکسز کا حجم 5 ہزار 441 ارب روپے ہوگا۔

حکومت کی آمدن میں ٹیکس کے علاوہ 2 ہزار 963 ارب اکٹھے کرنے کا ہدف ہے۔ رواں مالی سال 2022-23 کیلئے جب گزشتہ برس بجٹ پیش کیا گیا تو خسارہ 4 ہزار 598 ارب روپے تھا جبکہ آئندہ برس کے بجٹ میں یہ خسارہ بڑھ کر 7 ہزار 573 ارب روپے ہے۔ گزشتہ بجٹ کا خسارہ کل بجٹ کا 48 فیصد تھا جبکہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا خسارہ کل بجٹ کا 52 فیصد سے زائد ہے یعنی کل بجٹ کا خسارہ ایک سال میں 4 فیصد بڑھ گیا ہے۔

پی ڈی ایم اور اتحادی حکومت نے مسلسل دوسری مرتبہ اپوزیشن کے بغیر بجٹ پیش کرنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ ایوان میں موجود تمام جماعتیں حکومت میں ہیں جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پی ٹی آئی کے اپوزیشن میں بیٹھے ممبران بھی صرف اپوزیشن کے نام کو زندہ رکھنے کیلئے ایوان میں موجود ہے۔ گزشتہ برس مفتاح اسماعیل نے انتہائی شائستہ انداز میں بجٹ پیش کیا جبکہ اس بار اسحق ڈار نے بغیر کسی رکاوٹ کے بجٹ پیش کردیا۔

قبائلی علاقوں کو کسٹم اور سیلز ٹیکس میں جون 2024تک توسیع

بجٹ میں صوبے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو سیلز اور کسٹم ٹیکس کی مد دی جانے والی چھوٹ کو ایک سال کی توسیع دیدی گئی ٹیکس چھوٹ جون 2024 تک رہے گی اسی طرح لیویز اور خاصہ داروں کو سمگلنگ کی روک تھام کیلئے کسٹم کی معاونت والے اداروں میں شامل کرنے کی بھی تجویز دیدی گئی ہے۔

کسٹم ایکٹ 1969 اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں ترامیم کرتے ہوئے سابقہ فاٹا اور پاٹا کے علاقوں کیلئے درآمد کی گئی مشینری اور آلات پر چھوٹ میں جون 2024 تک توسیع کردی گئی ہے۔ صوبائی لیویز اور خاصہ دار فورس کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انسداد سمگلنگ آپریشنز میں کسٹمز کی مدد کے لیے لازمی سرکاری اداروں کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سمگلنگ کیخلاف کارروائیاں تیز کرنے اور اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ کے جرم کے لیے سزا کی دفعات کو مزید سخت کرنے کی تجویز ہے۔

گڑ کی درآمد پر ڈیوٹی میں اضافہ، بجلی پر سیلز ٹیکس ختم

نیشنل ٹیکس کونسل کے فیصلے کے مطابق بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کو سیلز ٹیکس کے دائرے سے خارج کرنے جبکہ الیکٹرک پاور ٹرانسمیشن سروسز پر 15 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ ناکارہ ٹنگسٹن فلامینٹ انکینڈسنٹ بلب کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے، ان بلبوں اور ان کے پرزوں پر 20 فیصد ریگولرٹری ڈیوٹی لگا دی گئی گڑ کی برآمد پر ایکسپورٹ ریگولیٹری ڈیوٹی 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کر دی گئی۔ سولر پینلز اور اس سے منسلک آلات کی تیاری کے لیے انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری کے لیے مشینری، آلات اور ان پٹ کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ دیدی گئی۔

انفارمیشن ٹکنالوجی اور اس سے چلنے والے آلات کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دے کر ان کی برآمدی آمدنی کے ایک فیصد کردی گئی ۔کان کنی کی مشینری کے خام مال ، چاول کی مشینری کے خام مال ، مشین کیلئے درکار پرزوں پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دیدی گئی ۔ زرعی شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے بوائی کے لیے بیجوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے جبکہ تجارتی فش فارمز اور ہیچریوں میں افزائش نسل کے لیے جھینگوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ ہوگی۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مصدقہ مینوفیکچررز کی طرف سے استعمال کے لیے تیار سپلیمنٹری فوڈز کی تیاری کے لیے بھنی ہوئی مونگ پھلی پر کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ ہوگا، استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کردیا گیا۔ مانع حمل ادویات اور دیگر اشیاء پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ پودوں کے پودے، کمبائن ہارویسٹر، زرعی مصنوعات کے لیے ڈرائر، بغیر ٹل ڈائریکٹ سیڈر، پلانٹر، ٹرانس پلانٹرز، دیگر پلانٹرز اور بوائین سیمین پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔

ترقیاتی پروگرام میں ضم اضلاع کیلئے 57ارب مختص

وفاقی حکومت نے مالی سال 2023-24 کیلئے تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی پروگرام پیش کردیا۔ صوبوں اور وفاق کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 2 ہزار 709 ارب روپے ہوگا پبلک سیکرٹری ڈویلپمنٹ پروگرام کا حجم ایک ہزار 150ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں دو سو ارب روپے نجی شعبہ کی جانب سے خرچ کئے جائینگے۔

پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 80 فیصد فنڈز ان جاری ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائینگے جو جون 2024 تک مکمل ہونگے۔ ترقیاتی پروگرام میں خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کیلئے 57ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ آزاد کشمیر کیلئے 32 ارب 50 کروڑ روپے اور گلگت بلتستان کیلئے 28 ارب 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ سماجی شعبوں کی ترقی کیلئے 244ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں اعلیٰ تعلیم کیلئے 82 ارب، صحت کیلئے 26 ارب، سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے 34 ارب، معدنیات اور زراعت کیلئے 50 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

بجلی کی ترسیل کے نظام میں بہتری کیلئے 107 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں بجلی کی پیداوار کیلئے بھی کئی منصوبوں کیلئے رقم مختص کی گئی ہے جس میں جام شورو پاور پلانٹ سے 1200 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کیلئے 12 ارب، پاکستان اور ازبکستان کے درمیان 500 کلو وولٹ ٹرانسمشن لائن کیلئے 16 ارب، موجودہ گرڈ سٹیشن کی بہتری کیلئے 5 ارب، سکی کناری، کوہالہ اور محال ہائیڈرو پلانٹ کیلئے 13 ارب، داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کیلئے 6 ارب رکھے گئے ہیں مہمند ڈیم کی تکمیل کیلئے 10 ارب 50 کروڑ، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 59 ارب، دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے 20 ارب، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 4 ارب 80 کروڑ، تربیلا کی استعدادکار بڑھانے کیلئے 4 ارب 50کروڑ، ورسک پاور سٹیشن کی بحالی کیلئے دو ارب 60کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button