سیاست

فاٹا انضمام کے پانچ سال مکمل، قبائلی عوام نے کیا کھویا کیا پایا؟

 

خادم آفریدی

فاٹا انضمام کے پانچ سال مکمل ہو گئے ان پانچ سالوں میں قبائلی عوام نے کیا کھویا کیا پایا اور سابق فاٹا کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر برائے ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ فاٹا انضمام کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد عوام کو اس بات پر پختہ یقین ہو گیا کہ قبائلی عوام کے ساتھ جو وعدے کیئے گئے تھے اور قبائلیوں اضلاع کی ترقی کے لیے جو خواب دکھائے گئے تھے وہ سیاسی پارٹیوں اور حکومت وقت کا ایک سیاسی نعرہ تھا جبکہ وقت نے ثابت کر دیا کہ قبائلیوں کی زندگی کی تبدیلی کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبے یا کچھ اور نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر موقع پر یہ آواز بلند کی ہے کہ یہ ایک سیاسی نعرہ ہے اور مغربی قوتوں کا ایک ایجنڈا ہے ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ قبائلی عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لائے بلکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قبائلی عوام کا ہزاروں سال پرانا نظام کو ختم کیا جائے اور قبائلیوں کی اپنی علاقوں میں زندگی مشکل کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب مغربی قوتوں کے مقاصد ہوتے ہیں تو اس میں عام قبائلی کے لیے کوئی مثبت سوچ نہیں رکھتے بلکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان علاقوں میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

قبائلی عوام کے ساتھ کیا گیا ایک وعدہ بھی پورا نہ ہوا

انضمام کے موقع پر قبائلی عوام کے ساتھ جو بڑے بڑے وعدے کئے گئے تھے۔ اس میں سب سے بڑا وعدہ این ایف سی ایوارڈ میں حصہ تھا کہ قبائلی اضلاع کو این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد حصہ دیا جائے گا اور آنے والے دس سالوں تک 110 ارب سالانہ ان علاقوں پر خرچ کیئے جائیں گے جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع کی پسماندگی ختم کی جائے گی۔ قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں کے برابر کیا جائے گا، تعلیم، صحت، پانی و بجلی، روزگار، تجارت سمیت رہن سہن کی تمام تر سہولیات بندوبستی علاقوں کے برابر کیئے جائیں گے، انضمام کے پانچ سال مکمل ہو گئے لیکن ان وعدوں میں ایک بھی پورا نہیں کیا گیا ہے۔

حمید اللہ جان آفریدی نے ٹی این این کو مزید بتایا کہ ہم اس پر خفہ نہیں ہے کہ حکومت نے یہ وعدے پورے نہیں کیے بلکہ خفہ اس پر ہے کہ اس نظام میں ہمارے لیئے مثبت چیزیں تھی اپنے روایات، کلچر اور ایک مکمل طریقہ کار تھا جس کی وجہ سے علاقے میں امن و امان برقرار تھا۔ علاقے کے غریب اور مالدار اس نظام میں برابر تھے۔ شریعت، قبائلی روایات اور جرگوں کے ذریعے عوام کے درمیان تنازعات حل کیئے جاتے تھے جو ہم سے چھین لیا گیا اب چونکہ عدالتی نظام اور وکیل اور دلیل کا نظام جس کو کہتے ہیں کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں تنازعات مزید بڑھ گئے ہیں۔ آج تک کوئی ایک تنازعہ یا مسئلہ حل نہیں ہوا جس کی وجہ سے قبائلی عوام اس وکیل اور دلیل کے نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس نظام کے لیے قبائلی اضلاع کے رسم و رواج اور جرگہ سسٹم کو ختم کر دیا گیا جس کے تحت روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے تنازعات اور مسائل کا حل نکالا جاتا تھا۔

قبائلی اضلاع میں قائم انڈسٹری بند ہو گئی

حمید اللہ جان آفریدی نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تجارتی مراکز اور انڈسٹری تھی جو قبائلیت کے تحت ٹیکس سے مستثنی تھی لیکن اب ان تجارتی مراکز اور انڈسٹری پر ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ٹیکس لاگو ہو چکا ہے لیکن ان کو وہ سہولیات نہیں دی جاتی جو ملک کے دوسرے حصوں میں قائم انڈسٹری کو حاصل ہے جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں قائم انڈسٹری بند ہو گئی اور اس میں کام کرنے والے ہزاروں مقامی لوگ بے روزگار ہو گئے۔ کارخانوں کی بند ہونے کی وجہ سے علاقے میں بد امنی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔

حمید اللہ جان آفریدی نے مزید بتایا کہ قبائلی عوام کے رائے کے بغیر انضمام ہم پر مسلط کیا گیا ہے اس لیئے ہم 31 مئی کو یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ عوام کے نظام کی تبدیلی کا فیصلہ تھا اور اس میں کوئی بھی قبائل شامل نہیں تھا اس کے لیے جو کمیٹیاں بنائی گئی اس میں قبائل نہیں تھے جوکہ زیادتی ہے۔

طلباء کا کوٹہ سسٹم ختم کردیا گیا

حمید اللہ جان آفریدی نے مزید کہا کہ جب تک یہ سیاسی قوتیں قبائلیوں سے معافی نہیں مانگیں گی اور قبائلیوں عوام کو زندگی گزارنے کے لیے اپنی پسند کا نظام نہیں دیتے تب تک ہم اس اقدام کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہمارے بہت بڑے نقصانات ہوئے ہیں طلباء کا کوٹہ سسٹم ختم کیا گیا، اربوں روپوں کے معدنیات اور جنگلات اپنے قبضے میں لے لیئے آج تک ایک بھی ایسا اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے جس سے قبائل کو کوئی فائدہ ملا ہو۔ موجودہ وقت میں قبائلی اضلاع میں مختلف نوعیت کے جو واقعات رونماء ہو رہے ہیں یہ سابق فاٹا کے دور میں نہیں تھے۔ پولیس اور عدالتی نظام سے بندوبستی علاقوں کے عوام مطمئن نہیں ہیں لہذا قبائل کس طرح اس نظام سے مطمئن ہوں گے۔

حمید اللہ جان آفریدی نے ٹی این این کو مزید بتایا کہ یہ لمحہ فکریہ ہے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ جیسے بڑے عدالتوں میں سیاسی لوگ جب درخواستیں دیتے ہیں تو گھنٹوں میں سماعت شروع ہوتی ہے لیکن اگر کسی کا باب چالیس سال پہلے قتل کیا گیا ہو اور وہ درخواست دے دیں تو ان کا کوئی نہیں سنتا۔  قبائلیوں کو چاہیے کہ اس نظام سے نکلنے کے لیے متحد ہو جائیں، اتفاق و اتحاد قائم کرے اور حکومت وقت کے ساتھ بیٹھ کر اس کو اس بات پر مجبور کریں کہ قبائلی عوام کو ان کے پسند کے مطابق نظام دیں۔

دنیا میں ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں جس کا حل نہ ہو بس سنجیدگی کی ضرورت ہے

فاٹا انضمام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی ضلع خیبر کے مرکزی سیکرٹری جنرل صدیق چراغ آفریدی نے بتایا کہ پچیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ساتھ آئینی طور پر سابقہ فاٹا صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کیا گیا یہ ترمیم ایک طویل جدوجہد کے بعد سابقہ فاٹا کی پسماندگی کو مد نطر رکھ کر کی گئی۔ ترمیم کے بعد اب قبائلی علاقہ جات باضابطہ طور پر پختونخوا کا حصہ ہیں۔ پچیسویں آئینی ترمیم کے اوپر اگر ایک طرف اعتراضات اٹھائے گئے تو دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ترقی پسند نوجوان طبقے نے اس کو خوش آئیند قرار دیا بدنام زمانہ ایف سی آر میں جس طرح قبائیلی عوام کو جکڑے رکھا گیا تھا وہ اپنی مثال اپ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ شاید دنیا میں ایسا کوئی قانون ہو کہ جس کے فوائد یا نقصانات نہ ہو لیکن عام سا مشاہدہ یے کہ ہم بھی 1947 سے پاکستان کے شہری ہیں پھر ہم پورے پاکستان کے عوام سے ترقی میں پیچھے کیوں ہیں اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو۔ چراغ آفریدی نے کہا کہ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ائینی ترمیم کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا جس کے عارضی نقصانات ضرور ہوں گے جیسے لینڈ ڈسپیوٹ وغیرہ اس کیلئے مکینیزم بنانا چاہیئے تھا بلکہ یہاں میں یہ مطالبہ بھی کرتا چلوں کہ یہ اب بھی ممکن ہے کہ یہاں ہر قبیلے کی زمین معلوم ہے ہر قبیلے کے اندر تپہ کندی اور ٹبر کے حساب سے زمین کی تقسیم ہوچکی ہے نچلی سطح پر جو تھوڑے بہت تنازعات ہیں وہ بھی حل ہوسکتے ہیں کیونکہ دنیا میں ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں جس کا حل نہ ہو بس سنجیدگی کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپ ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور اس ملک کے قانون کو ماننے سے انکار کیا جائے۔

جن لوگوں نے فاٹا انضمام پر اعترضات اٹھائے ہیں وہ سب کے سب سابقہ بندوبستی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اگر ایف سی ار درست نظام تھا یا اس نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت تھی تو اج صف اول کی مذہبی جماعت اور اس کے پروردہ کیوں خاموش ہیں یا مستقل بنیادوں پر سابقہ بندوبستی علاقوں میں کیوں رہ رہے ہیں۔

ایف سی آر ایک کالا قانون تھا

چراغ آفریدی نے ٹی این این کو مزید بتایا کہ وقت گواہ ہے کہ بدنام زمانہ ایف سی ار قانون ایک کالا قانون تھا پولیٹکل ایجنٹ سیاہ و سفید کے مالک تھے جو مرضی چاہتا کرسکتا تھا۔ عدالتی نظام نیا نیا ہے عوام اس سے چونکہ نابلد ہے ورنہ ایک غریب ادمی ڈی سی یا ڈی پی او کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرسکتے ہیں۔ تھانہ کے ایس ایچ او تو اس میں کوئی معنی نہیں رکھتا، فاٹا انضمام اگر چہ بذات خود ایک اچھا اقدام ہے لیکن یہاں میں یہ بھی واضح کروں کہ ہمارے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے وہ اج تک ایفا نہیں ہوئے۔

این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد حصہ دس سال تک سالانہ ایک دس ارب روپے پیکج کے علاوہ دس سالا ٹیکس فری زون وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جس کی عدم دستیابی کی وجہ سے ضم اضلاع کے عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے یا جس کی وجہ سے انضمام کے حامیوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔

موجوده وفاقی حکومت سے پر زور مطالبہ ہے کہ پچیسویں آئینی ترمیم اپ ہی لوگوں نے منظور کیا تھا سرتاج عزیز کمیشن میں جو وعدے کئے گئے تھے اس پر من و عن عمل درامد کو یقینی بنایا جائے جبکہ سابقہ فاٹا کو 2030 تک ٹیکس فری زون قرار دیا جائے تاکہ ہم بھی ترقی کی دوڑ میں پورے ملک کے شانہ بشانہ کھڑے ہوسکیں۔

فاٹا انضمام کے بعد فاٹا سٹیل ملز کی زبو حالی

فاٹا انضمام کے بعد فاٹا انڈسٹری کے مسائل اور مشکلات کے حوالے سے فاٹا سٹیل ملز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زبیر آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ فاٹا اور بلخصوص ضلع خیبر میں جنرل ایوب خان کے دور سے کپڑے کے کارخانے چلائے جاتے تھے۔ ملک کے مختلف علاقوں اور بلخصوص پنجاب سے لوگ یہاں آئے تھے اور کپڑے کے کارخانے لگائے تھے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کارخانوں میں اضافہ ہوتا رہا اور سٹیل ملز کا بڑا سیکٹر بھی قبائل اضلاع میں شروع ہوا اور پورے قبائلی اضلاع میں تقریباً 38 سٹیل ملز لگائے گئے جس میں سینکڑوں مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا گیا، اور یہ سلسلہ جاری رہا تاہم 2018 میں فاٹا انضمام کے بعد 2019 میں حکومت نے فاٹا سٹیل ملز انڈسٹری سیل ٹیکس ختم کر کے ایک نیا ٹیکس (ایف ای ڈی) فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو کر دیا جس کی وجہ سے انڈسٹری خسارے میں جانے لگا۔

حاجی زبیر آفریدی نے ٹی این این کو مزید بتایا کہ حکومت نے 2021 بجٹ میں دوبارہ یہ ایف ای ڈی واپس کر دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ انہوں نے غیر قانونی طور پر لاگو کیا تھا۔ جبکہ دوبارہ ہمارے پراڈکٹس پر سیل ٹیکس عائد کر دیا۔  ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہمارے کیس کا سٹیٹس یہ ہوا کہ اس کو ایف بی آر کو ریفر کر دیا اور کہا کہ یہ آپ نے کیوں لگایا تھا اور پھر کیوں ختم کر دیا اور متعلقہ پیریڈ خود خل نکال لیں لیکن ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکالا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے سیل ٹیکس بجلی پر برقرار رہی جو آج تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام حالات کی وجہ سے فاٹا انڈسٹری مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے اور لائبیلٹیز ماہانہ جمع ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سابق فاٹا میں قائم 38 سٹیل ملز میں صرف دو سٹیل ملز چالو حالت میں ہے باقی سارے بند پڑے ہیں۔

کارخانوں کی بحالی تک وقت دیا جائے

زبیر آفریدی نے کہا کہ ہر کارخانے کے ساتھ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ایک ہزار تک مقامی لوگ کو روزگار ملتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹری مالکان سمیت قبائلی اضلاع کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے۔  اس حوالے سے گورنر خیبرپختونخوا کے ساتھ پاٹا، فاٹا، مالاکنڈ ڈویژن، دیر، سوات، تیمرگرہ اور چترال کے چیمبرز آف کامرس کے وفد کا جرگہ منعقد ہوا ہے اور ہم نے مطالبہ کیا کہ وفاق کو درخواست کرے کہ ہمیں انڈسٹری کے لیے ٹیکس میں ایکسٹینشن جاری کریں اور بندوبستی علاقوں میں قائم انڈسٹری کے مطابق ہمیں بھی سہولیات فراہم کیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا روزگار جاری رہے کیونکہ ہزاروں قبائلیوں کا روزگار انڈسٹری سے جڑا ہوا ہے اگر یہ روزگار اسی طرح بند رہا تو یہ لوگ جرائم کی طرف جائے گے، زبیر آفریدی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمیں کارخانوں کی بحالی کا وقت دیا جائے جب کارخانے چالو کیئے جائیں تو اس کے بعد حکومت جو ٹیکس عائد کرتے ہیں تو باقاعدہ انڈسٹینڈنگ سے عائد کرے تاکہ اس کے مطابق ہم انویسٹمنٹ کریں۔

خیبر یونین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل زاہد اللہ آفریدی نے فاٹا انضمام کے پانچ سال مکمل ہونے پر ٹی این این کو بتایا کہ پچیسویں آئینی ترمیم کے پانچ سال پورے ہوگئے لیکن اگر قبائلی اضلاع کے عوام سے پوچھا جائے یا براہ راست مشاہدہ کریں تو انضمام کے فائدے کی بجائے مایوسی اور بے چینی دیکھنے کو ملیں گی کیونکہ انضمام باالجبر کے وقت حکمرانوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے جبکہ انضمام ہوتے ہی اشرافیہ ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے ہمارے وسائل پر قابض ہونا شروع ہوگئے حکومتِ وقت خصوصًا مسلم لیگ کے اخری دو اور تبدیلی سرکار کے چار سالوں میں ایک تسلسل کے ساتھ لالی پاپس دیئے جانے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے پر صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کو کتنے ارب ملے

یہاں اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایک طرف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر غریب اور پرامن قبائل کی سرزمین کو میدانِ جنگ میں تبدیل کردیا گیا تو دوسری جانب جنگ کے خاتمے کے بعد ان کے نقصانات کے ازالے کی بجائے ان کی محرومیوں میں مزید اضافے میں کوئی کسر نہیں چھوڑاگیا۔ ایک طرف قبائل کو سامراجی اور مغربی ایجنڈے کے مطابق ان کی اکثریتی رائے کے برخلاف صوبے میں ضم کردیا گیا اور دوسری جانب انضمام کی صورت میں جن وعدے وعید کا اظہار کردیا گیا تھا جوکہ اب سب بھلا دیاگیا ہے، کم از کم ملکی پارلیمنٹ سے منظور شدہ پچیسویں ترمیم کے تحت قبائلی علاقہ جات کے صوبے کے انضمام کی صورت میں دس سال تک سالانہ کی بنیاد پر ایک ہزار ارب اور این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد دینے کے فیصلے کے مطابق اب تک یعنی پچھلے پانچ سال میں کتنے ارب جاری کئے گئے ہیں تاحال اس بارے حکومت وقت کے پاس کوئی جواب ہی موجود نہیں ہے۔

تعلیم سے جڑا ایک اور اہم مسلہ خیبر کے علاقہ تیراہ میں سکولوں کی عمارات بنانے کے باوجود سٹاف کی عدم فراہمی بھی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے وہ بھی سب عوام کے سامنے ہیں۔ انضمام کے وقت وکیل دلیل اور اپیل کا حق ملنے کے لالی پاپ دے کر دلائل پیش کررہے تھے لیکن لاپتہ افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا، قبائلی علاقہ میں امن و امان کی فوری بحالی، گراس روٹ لیول پر اختیارات کو منتقل کرنے کے لئے جلد از جلد بلدیاتی اداروں کو احتیارات کی منتقلی کو یقینی بنانا سب کے سب جھوٹے وعدے ثابت ہوئے۔

رواں سال ہونے والی مردم شماری جس کو حال ہی میں وفاقی کابینہ سے منظور کروالیا گیا اس بناء پر جھوٹی ثابت ہوئی کہ قبائلی عوام کی آبادی بڑھنے کی بجائے کم ظاہر کی گئ ہے جوکہ سب سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کردی  ہے جس کی بدولت ہمارے مسائل بڑھ جائیں گے اور وسائل کم کیئے جائیں گے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین آرٹیکل 247 میں قبائلی عوام پاکستان کے شہری اور پانچویں اکائی کی حیثیت حاصل تھی جبکہ اب نہ صوبہ حقوق دے رہے ہیں جبکہ اپنی آئینی احتیارات اور تشخص سے بھی محروم رہ کر مایوسی کا شکار ہوگئے جس کی بناء پر روز بروز قبائلی اضلاع کے عوام نت نئے مشکلات میں جکڑ چکے ہیں۔

قبائلی عوام اور سیاسی شعور

فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کو حاصل ہونے والے فائدے، نقصانات اور مستقبل کے حوالے سے ضلع خیبر کے سینئر صحافی اور قبائلی امور کے ماہر اسلام گل آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ ایک تو فاٹا انضمام کے ساتھ آئین اور قانون کا قبائلی اضلاع تک رسائی حاصل ہوئی اور یہاں کے مقامی لوگوں کو انصاف ملنے کے لیے ماتحت عدالتوں اور ہائی عدالتوں تک رسائی کا حق دیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی میں نشستیں دی گئی اور بلدیاتی نظام قائم کیا گیا، اس کے علاؤہ گزرے ہوئے حالات کی نسبت موجودہ وقت میں لوگوں سیاسی شعور اور بیداری پیدا ہو گئی اور قبائلی اضلاع میں مختلف اداروں کی فعالیت بھی ممکن ہوئی ہے۔
اسلام گل آفریدی نے فاٹا انضمام کے بعد نقصانات کے حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ سابق فاٹا کا سالانہ ترقیاتی بجٹ اور تین فیصد این ایف سی ایوارڈ دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا جو ٹوٹل سالانہ 120 ارب بنتا ہے یہ مسلسل 10 سالوں تک قبائلی اضلاع کی پسماندگی پر خرچ کی جائے گی لیکن بدقسمتی سے نہ صرف این ایف سی ایوارڈ پر صوبائی اور وفاقی حکومت نے آنکھیں بند کردی بلکہ جو قبائلی اضلاع کا اپنا سالانہ بجٹ تھا وہ بھی صحیح طریقے سے قبائلی اضلاع میں خرچ نہیں کیا گیا۔

اسلام گل آفریدی نے ٹی این این کو مزید بتایا کہ پولیس نظام کو قبائلی اضلاع تک رسائی حاصل ہے لیکن ملک کے دیگر حصوں کی طرح منظم نہیں ہے، سب سے بڑا نقصان جو ہوا ہے وہ قومی اسمبلی کے 12 نشستوں کو کم کر کے 6 رہ گئی ہے اور سینٹ کے تمام 8 سیٹوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔

ٹیکس سے متعلق وعدے 

اس کے علاؤہ ٹیکس کی مد میں قبائلیوں کے ساتھ جو وعدے کیئے گئے تھے کہ پانچ سال تک چوٹ دیا جائے گا لیکن وہ نہیں دیا گیا صرف اعلانات تک محدود تھا جبکہ حکومت ایف بی آر کی جانب سے انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا ہوا جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں انڈسٹری سیکٹر بہت متاثر ہوا اور زیادہ تر انڈسٹری بند ہو گئی اور ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگوں بے روزگار ہو گئے۔

اسلام گل آفریدی نے فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ قبائلی اضلاع خیبرپختونخوا کے ساتھ جڑ گئے لیکن خیبرپختونخوا خود اتنے مسائل اور غربت کا شکار ہے کہ وہ نہیں کر سکتا کہ قبائلی علاقوں کو اس طرح کی توجہ دے جو ان قبائلیوں کو چاہیے۔ آنے والے وقت میں کوئی خاص توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ کوئی مثبت تبدیلی آئے گی البتہ اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انضمام ہوچکا ہے جو ہوا ہے سو ہوا ہے اب آگے جانا ہے اور یہ اس عمل کو اپرشیئٹ کرنا ہے لیکن میرے خیال میں آنے والے وقت میں بھی کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انضمام مخالف تحریکوں کے مطالبات روز بروز زور پکڑتے جارہے ہیں اور ان کی باتوں میں وزن پیدا ہوتی ہے وجہ یہ ہے کہ قبائلی عوام کے ساتھ انضمام کے وقت جو وعدے کیئے گئے تھے وہ ایک بھی پورا نہیں ہوا۔

31 مئی یوم سیاہ

فاٹا انضمام کے مخالف تحریک فاٹا قومی جرگہ کے چیئرمین حاجی بسم اللہ خان آفریدی نے فاٹا انضمام کے حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ 31 مئی وہ دن ہے جس دن فاٹا بالجبر انضمام خیبر پختونخوا کے ساتھ کیا گیا۔ ہم اس کو بالجبر اس لیئے کہتے ہیں کہ اس میں قبائلی اعوام کی رائے شامل نہیں تھی جس کی پہلے دن سے ہم نے مخالفت کی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، 31 مئی کو ہر سال یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں، باجوڑ سے لیکر وزیرستان اور ایف آر کے مشران ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، فاٹا انضمام سے ہمارا بہت نقصان ہوا ہے، انضمام کے موقع پر قبائلیوں کے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے ایک بھی پورا نہیں کیا ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں  فاٹا میں نہ کوئی یونیورسٹی بنائی گئی نہیں کوئی بڑا ہسپتال قائم کیا گیا بلکہ باڑہ میں دہشت گردی کے دوران تباہ شدہ تعلیمی اداروں کو ابھی تک تعمیر نہیں کیا گیا ہم اس کو ترقی نہیں کہتے کہ قبائلی اضلاع میں تھانے بنائے جائیں، خواتین کے لیے جیل بنائے جائے انضمام کا مقصد صرف اور صرف ہمارے معدنیات اور جنگلات پر قبضہ کرنا تھا۔ انہوں نے ٹی این این کو مزید بتایا کہ انضمام کے وقت بنائی گئی کمیٹیوں میں قبائلی عوام سے ایک بھی نمائندہ شامل نہیں تھا اگر یہ لوگ قبائلی کے ساتھ مخلص ہوتے تو ان سے پوچھتے کیوں کہ یہ قبائلیوں کے مستقبل کا ایک بڑا فیصلہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ انضمام کے ساتھ ہمارے مسائل میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ فاٹا کی حیثیت کی تبدیلی کا طریقہ کار  باقاعدہ طور پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 247 سب آرٹیکل 6 میں موجود ہے لیکن انہوں نے وہ بائی پاس کر کے ایک سادہ آئینی ترمیم کے زریعے فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کیا۔ اس کے تناظر میں ہم نے سپریم کورٹ میں باقاعدہ رٹ پٹیشن دائر کیا ہے جس کا پچھلے ایک سال سے تاریخ تاخیر کا شکار ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button